Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 38
كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا
كُلُّ : تمام ذٰلِكَ : یہ كَانَ : ہے سَيِّئُهٗ : اس کی برائی عِنْدَ : نزدیک رَبِّكَ : تیرا رب مَكْرُوْهًا : ناپسندیدہ
ان سب (عادتوں) کی برائی تیرے پروردگار کے نزدیک بہت ناپسند ہے۔
38۔ جبیر بن مطعم سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ جب چلتے تو جھک کر چلتے جیسے کہ اونچائی سے ڈھلوان کی طرف آ رہے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے چہرے سے زیادہ حسین کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ گویا کہ سورج آپ ﷺ کے چہرے میں چلتا ہے اور میں نے نہیں دیکھا، آپ ﷺ سے زیادہ تیز چلنے والا کسی کو ۔ گویا کہ ان کے لیے زمین کو لپیٹ دیا گیا ہو اور ہم اپنے نفسوں کے لیے کوشش کرتے تھے لیکن ان تک پہنچنے کے لیے تھک جاتے تھے۔ ” کل ذلک کان سیئۃ عند ربک مکروھا ً “ ابن عامر اور اہل کوفہ نے ہمزہ کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور ھاء کے ضمہ کے ساتھ اضافت ہونے کی وجہ سے۔ یعنی مذکورہ بالا تمام امور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’ وقضیٰ ربک الا تعبدوا الا ایاہ “۔۔۔۔” کان سیئۃ “ یعنی امور مذکورہ میں سے جو برے ہیں اور ان کے ارتکاب کی ممانعت کی گئی ہے۔” وآت ذالقربی ٰ حقہ “۔۔۔۔” واخفض لھما جناح الذل “ اور دوسرے قراء نے ” سیئۃ “ تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اور اسی طرح ” ولا تقتلوا اولاد کم “ اس مقام میں بھی برائی کا ذکر ہے نہ کہ نیکی کا ، یہ سب امور جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے نہ کہ اس کے علاوہ سے ، یہاں پر مکروہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس میں کچھ تقدیم و تاخیر ہے یعنی ہر وہ کام جو ناپسندیدہ ہو وہ برا ہے۔ ” مکروھا “ یہ تکریر کے لیے ہے نہ کہ صفت کے لیے ، یعنی ہر وہ چیز جو بری ہوگی وہ مکرو ہ بھی ہوگی ۔ یہاں معنی کا اعتبار کیا گیا نہ کہ لفظ کا اس لیے کہ ” سیئۃ “ سے مراد ذنب ہے اور وہ مذکر ہے۔
Top