Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
اگر تم نیکو کاری کرو گے تو اپنی جانوں کے لئے کرو گے اور اگر اعمال بد کرو گے تو (ان کا) وبال بھی تمہاری جانوں پر ہوگا، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے پھر اپنے بندے بھیجے) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (بیت المقدس) میں داخل ہوگئے تھے اسی طرح پھر اس میں داخل ہوجائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے تباہ کردیں
7۔” ان احسنتم احسنتم لا نفسکم “ ان کے لیے ثواب ہے ” وان اساتم فلھا “ اگر برائی کرو گے تو اس کا وبال تم پر ہی آئے گا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ” فسلام لک “ یعنی تم پر سلام ہو۔ اگر برائی کرو گے تو اس کی جزا و سزا تم خود پائو گے۔ ” فاذا جاء وعد الاخرۃ “ اور ان کا دوسرا فساد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کرنے کا ارادہ کیا جب ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا ۔ انہوں نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو آرے سے چیر لیا ۔ اللہ نے ان پر فارس وروم کو مسلط کردیا ۔ خردوش طیطوس کو یہاں تک کہ انہوں نے ان کو قتل کیا اور بعضوں کو قید کیا اور بعضوں کو اپنے گھروں سے باہر نکالا۔ ” لیسوء اوجوھکم “ کہ تمہارے چہروں کی ایسی حالت کردیں جس سے برائی اور خرابی کے آثار واضح طور پر نمایاں نظر آئیں ۔ کسائی اور یعقوب کے نزدیک ” لنسوائ “ پڑھتے ہیں جبکہ دوسرے قراء کے نزدیک اس کو یاء کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے چہروں کو غمزہ کر دے گا اور بعض نے کہا کہ اپنے وعدے کے ساتھ ان کے چہروں کو غمزدہ کردے گا جب کہ دوسرے قراء نے یاء کے ساتھ اور ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ بندوں کی اداسی کا سبب ان کی سخت پکڑ اور ان کے چہروں کے غمزدہ ہونے کے بسبب ہے۔ ” ولید خلوا المسجد “ بیت المقدس اور اس کے آس پاس مراد ہے۔ ” کما دخلوہ اول مرۃ ولیتبروا “ ہم ان کو ہلاک کردیں ۔ ” ماعلوا “ جس شہر پر غلبہ پائیں گے ان کو مکمل طور پر تباہ کردیں گے۔” تتبیرا “۔
Top