Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 94
قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰۤى اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُمْ سَدًّا
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِنَّ : بیشک يَاْجُوْجَ : یاجوج وَ : اور مَاْجُوْجَ : ماجوج مُفْسِدُوْنَ : فساد کرنیوالے (فسادی) فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَهَلْ : تو کیا نَجْعَلُ : ہم کردیں لَكَ : تیرے لیے خَرْجًا : کچھ مال عَلٰٓي : پر۔ تاکہ اَنْ تَجْعَلَ : کہ تو بنادے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان سَدًّا : ایک دیوار
ان لوگوں نے کہا کہ ذوالقرنین ! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں بھلا ہم آپ کے لئے خرچ (کا انتظام) کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے دریمان ایک دیوار کھینچ دیں ؟
(94)” قالو یا ذوالقرنین “ سوال وہ تو کچھ بات سمجھتے نہیں تو پھر ان کو کیسے کہا ؟ جواب : ان کے ساتھ کلام کیا ترجمان کے ساتھ۔ اس پر دلیل حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت ہے کہ وہ کسی کی بات سمجھتے نہیں تھے، آپ نے ان کے علاوہ لوگوں کو کہا اے ذوالقرنین ” ان یاجوج وماجوج “ عاصم نے ان دونوں کو ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے قراء نے بغیر ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس میں دو لغتیں ہیں۔ یہ اصل میں ” اجیج النار “ ہے ۔ آگ کا شعلہ، بھڑک شرارہ کثرت تعداد کی وجہ سے ان کو آگے کے شعلوں اور چنگاریوں سے تشبیہ دی۔ یاجوج ماجوج کس نسل سے ہیں بعض نے کہا کہ یہ ہمزہ کے ساتھ یاجوج و ماجوج ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ عجمی ہیں۔ ہاروت و ماروت کی طرح یہ یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں۔ ضحاک کا قول ہے کہ وہ ترکوں کی نسل میں سے ہیں۔ سدی نے کہا کہ ترک یاجوج ماجوج کا ایک فوجی دستہ تھا جو نکل آیا تھا۔ جب ذوالقرنین نے دیوار بنادی تو وہ دستہ پہاڑوں سے ادھر ہی رہ گیا، تمام ترک اسی کی نسل سے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ یاجوج کے 22 قبائل تھے۔ ذوالقرنین نے سد بنائی تو ایک قبیلہ ادھر ہی رہ گیا۔ 21 قبائل اُدھر چلے گئے۔ اسی ایک قبیلہ کو ترک کہاجاتا ہے کیونکہ سد سے ورے اس کو ترک کردیا چھوڑ دیا گیا۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے تھے سام، حام، یافث۔ ک سارے عرب، فارس اور روم والے سام کی نسل سے ہیں اور حام کی نسل سے حبش، زنج اور نوبہ کے لوگ ہیں اور یافث کی نسل سے ترک خزر ضقالبہ اور یاجوج ماجوج ہیں۔ ابن عباس ؓ نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ سارے آدمی تو ایک حصہ ہیں اور یاجوج ماجوج دس حصے ہیں۔ یاجوج ماجوج کی مختلف قسمیں حضرت حذیفہ ؓ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یاجوج ایک الگ قوم ہے اور ماجوج دوسری قوم ہے۔ ہر ایک کی تعداد چار سو ہزار ( چار لاکھ) ہے وہ سب حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک وہ اپنی پشت سے پیدا شدہ ایک ہزار آدمی ایسے نہ دیکھ لے جو ہتھیار اٹھانے کے قابل ہوں، یہ لوگ غیر آباد دنیا کی طرف پھیلتے جائیں گے۔ بعض نے کہا کہ یاجوج ماجوج تین طرح ہیں ایک قسم تو درخت ارز کے برابر ہے، ان میں سے ہر شخص کا قد ایک سو بیس ہاتھ لمبا ہے، دوسری قسم جن کا طول و عرض برابر ہوتا ہے ایک سو تیس ہاتھ لمبا اور اتنا ہی چوڑا ان کے سامنے کوئی پہاڑ بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ تیسری قسم وہ ہے۔ جو ایک کان بچھاتے اور ایک کان اوڑھتے ہیں ( قیامت کے قریب جب یہ برآمد ہوں گے تو) جو گھوڑا یا خنزیر یا جنگلی وحشی جانور ان کے سامنے آجائے گا، اس کو بغیر کھائے نہیں چھوڑیں گے، ان میں سے جو کوئی مرجاتا ہے اس کو کھالیتے ہیں۔ ان کا اگل دستہ شام میں اور پچھلا حصہ خراسان میں ہوگا۔ مشرق کے ( تمام) دریائوں اور بحیرئہ طبریہ ( بحیرئہ مردار) کا پانی پی جائیں گے۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت علی ؓ نے فرمایا، ان میں سے بعض کا طول ایک بالشت اور عرض ایک ہاتھ ہے اور بعض بہت زیادہ لمبے ہیں۔ کعب احبار نے کہا وہ اولاد آدم میں ایک عجیب مخلوق ہیں۔ ایک روز حضرت آدم (علیہ السلام) کو احتلام ہوا اور نطفہ مٹی کے ساتھ مخلوط ہوگیا۔ اس نطفہ سے اللہ نے یاجوج و ماجوج کو پیدا کردیا، وہ باپ کی طرف سے تو ہمارے ( علاتی) بھائی ہیں لیکن ہماری ماں کی نسل سے نہیں ہیں۔ ذوالقرنین کا واقعہ بغوی نے وہب بن منبہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ذوالقرنین رومی تھا اور ایک بڑھیا کا بیٹا تھا، جو ان ہوا تو نیک مؤمن بندہ ہوا اور اللہ نے اس سے فرمایا میں تجھے ایسے قوموں ( کی اصلاح) کے لیے بھیجوں گا جن کی زبانیں مختلف ہوں گی۔ ان میں سے دو قومیں ایسی ہوں گی جن کے درمیان پوری زمین کے طول کا فاصلہ ہوگا۔ ایک غروب آفتاب کے مقام پر ہوگی جس کو ناسک کہا جائے گا اور دوسری سورج نکلنے کے مقام پر ہوگی جس کو منسک کہاجائے گا اور دو قومیں اور ہوں گی جن کے درمیان پوری زمین کا عرض فاصل ہوگا۔ جنوب کی طرف والی قوم کو ہاویل کہاجائے گا اور شمالی والی کو قاویل، باقی اقوام وسط ارض پر آباد ہوں گی جن میں جنات بھی ہوں گے اور انسان بھی اور یاجوج و ماجوج بھی۔ ذوالقرنین نے عرض کیا پھر کس قوم کو ساتھ لے کر میں ان سے قوت و کثرت میں مقابلہ کروں گا اور کس زبان میں ان سے گفتگو کروں گا، اللہ نے فرمایا میں تجھے طاقت عطا کروں گا، تیری زبان میں پھیلا دوں گا اور تیرا بازو مضبوط کردوں گا، تجھے کوئی چیز خوف زدہ نہ کرے گی، تجھے ہیبت کا لباس پہنائوں گا کہ تجھے کوئی شے روک نہ سکے گی، میں نور و ظلمت کو تیرا فرماں بردار بنادوں گا اور دونوں کو تیرا مدد گار کردوں گا۔ نور تجھے آگے آگے راستے دکھائے گا اور تاریکی پیچھے پیچھے سے تجھے گھیرے میں لیتی رہے گی۔ حسب الحکم ذوالقرنین چل دیا اور آفتاب کے غروب ہونے کے مقام تک پہنچ گیا۔ وہاں اس کو دشمنوں کی ایک جماعت ملی جو بیشمار تھی، ان کی گنتی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ ذوالقرنین نے ظلمت سے مدد لے کر ان سے مقابلہ کیا، سب کو ایک جگہ جمع کرکے اللہ کی عبادت کی، ان کو دعوت دی، کچھ لوگوں نے دعوت کو مان لیا، کچھ کترا گئے جو لوگ رو گرداں ہوگئے ان پر ذوالقرنین نے ظلمت کو مسلط کردیا، تاریکی ان کے پیٹوں اور گھروں کے اندر گھس گئی۔ آخر وہ ذوالقرنین کی دعوت میں داخل ہوگئے۔ اسی جگہ مغرب والوں کا ذوالقرنین نے ایک لشکر تیار کیا اور اس کو ساتھ لے کر ہاویل ( جنوبی قوم کے پاس پہنچ گیا اور یہاں بھی وہی سلوک کیا جیسا ناسک کے ساتھ کیا تھا پھر منسلک کی طرف گیا جو طلوع آفتاب کے مقام کے قریب آبا تھے، یہاں پہنچ کر ذوالقرنین اور اس کے لشکر نے وہی عمل کیا جو مذکورہ دونوں قوموں کے ساتھ کرچکا تھا، پھر قاویل ( شمالی قوم) کی طرف رخ کیا اور ان سے بھی وہی معاملہ کیا جو مندرجہ بالا اقوام کے ساتھ کیا تھا۔ اس کے بعد وسطی اقوام کی طرف توجہ کی، مشرقی جانب ترکوں کی سرحد پر پہنچا تو وہاں نیک ایمان دار آدمیوں کا ایک گروہ اس کے پاس آیا اور کہا ذوالقرنین ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کی ایک مخلوق ایسی ہے جو بہائم ( چوپایوں) کی طرح ہے اور درنوں کی طرح ان کے نوکیلے دانت اور کچلیاں ہیں۔ سانپوں اور بچھوئوں کو کھا جاتے ہیں اور گھوڑوں گدھوں اور جنگلی جانوروں کو پھاڑ کھاتے ہیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی مخلوق کی اتنی تعداد نہیں ہے اور اتنی ہی ان کی افزائش نسل ہے کہ کسی مخلوق کی نہیں ہے، وہ ہماری سرزمین پر آجاتے ہیں، تسلط جماتے ہیں اور تباہی مچاہتے ہیں، کیا ہم آپ کے لیے چندہ جمع کردیں کہ آپ ہمارے ان کے درمیان ایک آڑ بنادیں۔ ذوالقرنین نے کہا کہ میرے رب نے مجھے طاقت و دولت وغیرہ) عطا فرمائی ہے وہ ( تمہارے چندہ سے) بہتر ہے، تم لوگ میرے لیے پتھر کی چٹانیں اور لوہا اور تانبا فراہم کردو اور میں جا کر ان کے حالات معلوم کرتا ہوں۔ یہاں سے ذوالقرنین ان لوگوں کے احوال دریافت کرنے کے لیے چلا اور ان کی بستیوں کے اندر داخل ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی قد کے ہیں، ہمارے متوسط القامت آدمی کے طول سے ان کا طول قامت آدھا ہے۔ ان کے پنجے اور نوکیلے دانت اور کچلیاں درندوں کی طرح ہیں اور سارے بدن پر سخت بال اتنی کثرت سے ہیں کہ جسم کو چھپائے ہوئے ہیں، سردی گرمی سے بچائو ان کو ان بالوں ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ ہر شخص کے دو بڑے بڑے کان جانوروں کی طرح جماع کرتے ہیں۔ ذوالقرنین یہ کیفیت دیکھ کر لوٹ آیا اور دونوں پہاڑوں کے درمیان پہنچ کر انہوں نے پیمائش کی، پھر نیچے پانی کی تہہ تک بنیاد کھودکر پتھر کی چٹانوں سے اس کو بھر دیا اور تانبا پگھلا کر اس سے مصالحہ کا کام لیا۔ اس طرح دیوار مکمل ہوگئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے نیچے سے ایک پہاڑ پھوٹ آیا ہے۔ ” مفسدون فی الارض “ کلبی کا بیان ہے کہ ان لوگوں کا فساد یہ تھا کہ یہ لوگ موسم بہار میں نکلتے تھے، کوئی سبزہ بھی ان کو نظر آجاتا تو یہ کھا جاتے اور جو خشک چیز نظر آئے اس کو روند ڈالتے، یہ ان کی زمینوں میں داخل ہوگئے، یہ لوگوں کو بہت اذیت دیتے اور لوگوں کو قتل کردیتے۔ اور بعض نے کہا کہ ان کا فساد یہ تھا کہ یہ انسانوں کو کھا جاتے۔ بعض نے کہا کہ جب یہ نکلتے تو زمین میں فساد پھیلاتے۔ ” فھل نجعل لک خرجاً “ حمزہ اور کسائی نے (خراجاً ) الف کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے قراء نے ” خرجاً “ پڑھا ہے بغیر الف کے دونوں لغتوں میں ان کا معنی ایک ہی ہے۔ مزدوری و اجرت۔ ابو عمرو نے کہا کہ خراج وہ چیز ہے جس کا ادا کرنا تم پر لازم ہو اور خرج وہ چیز ہے جس کو دے کر تم دوسرے کو راغب کرتے ہو۔ بعض نے کہا کہ خراج زمین کا ٹیکس اور خرج فی کس شخصی ٹیکس ہوتا ہے۔ عرب کا قول ہے کہ ” اوخرج راسک و خراج مدینتک “ کہ اپنی ذات کا خرچ ادا کرو اور اپنے شہرو کا خراج۔ بعض نے کہا کہ جو چیز زمین پر لازم ہو یا شخصی طورپر وہ خراج ہے۔
Top