Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 57
وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا
وَّرَفَعْنٰهُ : اور ہم نے اسے اٹھا لیا مَكَانًا : ایک مقام عَلِيًّا : بلند
اور ہم نے انکو اونچی جگہ اٹھا لیا تھا
57۔ ورفعناہ مکاناعلیا، اس سے مراد جنت ہے اور بعض حضرات کے نزدیک دنیا میں بلند مرتبہ کا حاصل ہوجانا ہے بعضنے کہ اس سے مراد چوتھے آسمان پر اٹھایا گیا یہ ہے۔ حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ شب معراج میں رسول اللہ نے حضرت ادریس کو چو تھے آسمان پر دیکھا تھا، یہ حدیث سورة بنی اسرائیل اور سو رہ نجم میں بیان کردی گئی۔ کعب بن احبار کا بیان ہے کہ حضرت ادریس ایک روز دن بھرچلے اور دھوپ کی تیزی اور تپش سے آپ کو تکلیف ہوئی بارگاہ الٰہی میں عرض کیا میرے رب ایک روز دھوپ کی تپش میں چلنے سے مجھے اتنی تکلیف ہوئی پانچ سوبرس کی مسافت جو ایک دن میں چلنے پر مجبور ہوا اس کی کیا حالت ہوگی ؟ اے میرے رب اس سورج کی گرمی ہلکی کردے اور جو فرشتہ اس کو چلاتا ہے اس کا بار کم کردے۔ دوسری صبح کو فرشتہ کو محسوس ہوا کہ سورج میں گرمی ہلکی ہوگئی جو روز کے معمول کے خلاف تھی عرض کیا اے میرے رب تیرے اس حکم میں تخفیف کی کیا وجہ ہے ؟ اللہ نے فرمایا میرے بندے ادریس نے درخواست کی تھی میں سورج کی گرمی کم کرکے تیرے اوپر سے بار ہلکا کردوں، میں نے اس کی دعا قبول فرمائی فرشتہ نے عرض کیا پروردگار، میری ا سے دوستی کرادے ، اللہ نے اجازت دے دی، آفتابی فرشتہ ادریس کے پاس آیا، ادریس نے ا س سے دریافت کیا اور کہا مجھے معلوم ہوا ہے تو بڑا معزز فرشتہ ہے اور ملک الموت کے پاس تیری بڑی عزت ہے تو ملک الموت سے میری سفارش کرے گا، کہ وہ میری موت میں کچھ مدت دھیل کردے تاکہ میں اللہ کے شکر و عبادت میں مزید اضافہ کرسکوں، فرشتے نے کہا آئی ہوئی اجل کو تو اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹالتا، بہرحال میں ملک الموت سے کہوں گا، اسکے بعد آفتابی فرشتہ ادریس کو آسمان پر اٹھا کرلے گیا اور طلوع آفتاب کے مقام کے قریب ان کوٹھہرایا، پھر ملک الموت سے جاکر کہا میرا آپ سے ایک کام ہے بنی آدم میں میر ایک دوست ہے جس نے مجھ سے سفارش کرائی ہے کہ آپ اس کی موت کو کچھ پیچھے کردیں۔ ملک الموت نے کہا مجھے اس کا ختیار نہیں اگر تم چاہتے ہوتواتنا کرسکوں کہ اس کو اس کے مرنے کی اطلاع پہلے سے دے دوں تاکہ وہ پہلے تیاری کرلے۔ آفتابی فرشتے نے کہا اچھا ملک الموت نے اپنے رجسٹر میں ادریس کا نام دیکھا دیکھ کر بولا آپ نے مجھ ایسے شخص کے متعلق گفتگو کی ہے جو میرے خیال میں آئندہ کبھی نہیں مرے گا، (کیونکہ اس کا نام زندوں کے اس رجسٹر میں نہیں ہے جو مرنے والے ہیں) آفتابی فرشتے نے کہا یہ کیسے ملک الموت نے کہا، میں نیا پنے رجسٹر میں یہ بات پائی کہ وہ آدمی طلوع آفتاب کے قریب مرے گا (چنانچہ وہ مرگیا اب زندہ نہیں ہے) آفتابی فرشتے نے کہا میں جوا آپ کے پاس آیا ہوں تو اس کو چھوڑ کر آیا ہوں ملک الموت نے کہا اب جاکردیکھوتم اس کو مردہ پاؤ گے اس کی زندگی کا کوئی حصہ باقی نہیں ہے فرشتے نے جاکردیکھاتوادریس (علیہ السلام) کو مردہ پایا۔ آسمان پر کون سے انبیاء زندہ ہیں۔ وہب بن منبہ نے کہا آسمان پر ادریس (علیہ السلام) زندہ ہیں یامردہ علماء کے اقوال اس کے متعلق اختلاف ہیں۔ ایک جماعت نے کہا وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں، اور صرف وہی ہی نہیں بلکہ چار انبیاء زندہ ہیں خضر اور الیاس، زمین پر ، اورادریس و عیسیٰ آسمان پر۔ وہب نے کہا آسمان پر روزانہ ادریس کی اتنی عبادت پہنچتی تھی، جتنی ساری زمین کے باشندوں کی فرشتوں کو اس پر تعجب ہوا اور ملک الموت کو ادریس سے ملنے کا شوق ہو اور اللہ سے اجازت لے کر وہ ادریس (علیہ السلام) کی ملاقات کو آدمی کی شکل میں آیا، ادریس (علیہ السلام) ہمیشہ روزے رکھتے تھے جب افطار کا وقت آیاتوملک الموت کو بھی انہوں نے کھانے پر بلالیا، ملک الموت نے کھانے سے انکار کردیا، تین روز ایسا ہی ہوتا رہا، اب ادریس کو ملک الموت کا انکار ناگوار ہو اور تیسری شب کو ملک الموت سے پوچھا میں جاننا چاہتاہوں آپ کون ہیں ؟۔ ملک الموت نے کہا میں موت کا فرشتہ ہوں اپنے رب سے آپ کے ساتھ رہنے کی اجازت لے کر آیا ہوں۔ ادریس (علیہ السلام) نے کہا میرا آپ سے ایک کام ہے ملک الموت نے کہا کیا کام ہے ؟ ادریس (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ میری روح قبض کرلو، فرشتے نے روح قبض کرلی، پھر تھوڑی دیر بعد اللہ نے روح واپس کردی، ملک الموت نے پوچھا آپ نے جو روح قبض کرنے کی درخواست کی تھی اس کی غرض کیا تھی، ادریس نے کہا میں موت کی تکلیف اور گہرائی کا مزہ چکھنا چاہتا تھا (بالکل مرجانا مقصد نہیں تھا) تاکہ موت کے لیے میری قابلیت زیادہ قوی ہوجائے اس کے بعد حضرت ادریس نے ملک الموت سے کہا میرا آپ سے ایک کام اور ہے ، ملک الموت نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ ادریس (علیہ السلام) نے کہا آپ مجھے آسمان پر لے جائیں تاکہ میں وہاں کے احوال دیکھ لوں اور جنت و دوزخ کی طرف بھی لے جائیں اللہ نے ملک الموت کو ادریس کی درخواست پوری کرنے کی اجازت دے دی۔ چناچہ ملک الموت ادریس (علیہ السلام) کو لے گئے دوزخ پر پہنچے تو ادریس نے ملک الموت سے کہا، آپ مالک (دوزخ کے داروغے) سے کہہ کر دوزخ کے دروازے کھلوادیجئے کہ میں اندر جاکر اتر کر دیکھ لوں ملک الموت نے ایسا ہی کردیا، ادریس (علیہ السلام) نے کہادوزخ تو آپ نے دکھا دی اب جنت بھی دکھادیجئے ملک الموت جنت کی طرف لے گئے اور جنت کے دروازے کھلوا کر اندر لے گئے ، اندرپہنچ گئے تو فرشتے نے کہا اب یہاں سے باہرنکلو اور اپنی اصلی قرار گاہ پر واپس جاؤ، ادریس ایک درخت کی ٹہنی پکڑ کرچمٹ گئے اور بولے اب میں یہاں سے باہر نہیں جاؤ گا، (دونوں میں گفتگو کا ردوبدل ہونے لگا) اللہ نے فیصلہ کرنے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتے نے آکر ادریس سے پوچھا آپ باہر کیوں نہیں جاتے ؟ ادریس نے جواب دیا، وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے ہر شخص موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور میں موت کا مزہ چکھ چکا اور اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ تم مں سے ہر شخص دوزخ میں ضرور اترے گا، میں دوزخ میں بھی اترچکا اور اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ جنت سے باہر کبھی نہیں نکالے جائیں گے اس لیے میں اب نہیں نکلوں گا، اللہ نے ملک الموت کے پاس وحی بھیجی میری اجازت سے یہ جنت میں داخل ہو اورمیری اجازت سے باہر نکلے گا تم نکالنے کی کوشش مت کرو) یہی وجہ ہے کہ ادریس (علیہ السلام) زندہ ہیں۔ ورفعناہ مکان علیا، کی یہی تشریح ہے۔
Top