Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا (جادو) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیج ڈالا وہ بری تھی، کاش وہ (اس بات کو) جانتے
102۔ ” واتبعوا “ یعنی یہود ”(آیت)” ماتتلوا الشیطین “ جو کچھ انہوں نے تلاوت کی عرب مستقبل کو ماضی کی جگہ رکھا کرتے ہیں اور ماضی کو مستقبل کی جگہ پر اور کہا گیا ہے ” ماتتلوا “ بمعنی ” ماکانت تتلوا “ یعنی تقراء پڑھتے تھے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ” تتلوا “ بمعنی پیروی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ عمل کرتے ہیں ، حضرت عطا (رح) فرماتے ہیں ” تتلو “ بمعنی ” تحدث وتتکلم بہ “ یعنی بیان کرتے اور اس کے ساتھ بولتے (علی ملک سلیمان) یعنی اس کے ملک میں اور عہد میں آیت کریمہ کا قصہ یوں ہے ، شیاطین نے جادو لکھا اور شعبہد بازیاں ، آسف بن برخیا کی زبان پر لکھیں ، یہ وہ کچھ جو آصف بن برخیا نے سلیمان بادشاہ کو سکھائیں پھر شیاطین نے ان کتابوں کو حضرت سلیمان کے مصلی کے نیچے دفن کردیا ، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملک چھین لیا ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو معلوم نہ ہوا ۔ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوئے تو شیاطین نے ان کتابوں کو نکالا اور لوگوں کو کہا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس جادو کے زور سے تم پر بادشاہ بنے رہے ، پس لوگوں نے اس جادو کو سیکھا ۔ بہرحال علماء وصلحاء بنو اسرائیل نے کہا ” معاذ اللہ “ یہ علم علم سلیمانی نہیں ہوسکتا ، بہرحال نچلے طبقہ کے لوگ (عوام الناس) کہنے لگے یہ علم سلیمانی ہے اور اس کے سیکھنے کے درپے ہوگئے اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کی کتب کو چھوڑ دیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خلاف ملامت عام ہوگئی اور یہی صورت حال باقی رہی ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ ﷺ پر حضرت سلیمان کی برات (اس سفلی علم سے) نازل فرمائی ، یہ کلبی (رح) کا قول ہے سدی کہتے ہیں شیاطین آسمان کی طرف چڑھتے تھے اور فرشتوں کی کلام سنتے جس کا تعلق زمین کے حالات سے ہوتا کسی کی موت وغیرہ ۔ پھر وہ شیاطین کاہنوں کے پاس آتے اور جو کچھ آسمان سے کلام سنتے اس کے ہر کلمہ کے ساتھ ستر (70) جھوٹ ملاتے اور اس کی خبر کاہنوں کو دیتے ، لوگوں نے ان چیزوں کو لکھ لیا اور بنی اسرائیل میں یہ بات عام ہوگئی کہ جن غیب جانتے ہیں ۔ پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے لوگوں میں (کارندے) بھیجے اور ان کتابوں کو جمع کیا اور ان کتابوں کو صندوق میں رکھا ۔ اور وہ صندوق اپنی کرسی (تخت) کے نیچے دفن کردیا اور فرمایا کہ میں کسی کو یہ کہتے نہ سنوں کہ جن غیب جانتے ورنہ میں اس کی گردن مار دوں گا ، جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لے گئے اور وہ علماء بھی ختم ہوگئے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس امر سے آگاہ تھے کہ انہوں نے صندوق میں کتابیں جمع کرکے کرسی کے نیچے دفن کی تھیں اور نالائق لوگ ان کے بعد آئے تو شیطان انسانی شکل میں بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے پاس آیا اور کہا کہ میں تمہیں ایسا دفینہ نہ بتاؤں جو تم سے کبھی ختم نہ ہو ، انہوں نے کہا ضرور فرمائیے تو شیطان بولا کہ (سلیمان (علیہ السلام) کی) کرسی کے نیچے کھدائی کرو اور خود ان کے ساتھ جا کر اس جگہ کی نشاندہی کی اور خود ایک طرف کھڑا ہوگیا ، وہ لوگ بولے قریب ہو شیطان بولا میں قریب تو نہیں ہوتا لیکن وہ خزانہ یہاں ہے (کھودو) اگر نہ پاؤ تو مجھے قتل کردینا اور یہ اس لیے کہ جب بھی کوئی شیطان حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی کے نزدیک ہوتا تو وہ جل جاتا ، پس بنی اسرائیل کے ان لوگوں نے کھدائی کرکے وہ کتابیں نکالیں ، شیطان بولا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنات انسانوں اور شیطانوں ، پرندوں پر اس جادو کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے ، پھر شیطان اڑ گیا اور یہ بات لوگوں میں عام ہوگئی ، کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جادوگر تھا ، بنو اسرائیل نے وہ کتابیں اپنے قبضہ میں لے لیں ، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر جادو یہود کے ہاں پایا جاتا ہے ، جب حضور ﷺ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جادو وغیرہ سے برات بیان فرمائی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عذر (برات) یہ نازل فرمایا (آیت)” وما کفر سلیمان “ جادو کر کے (حضرت سلیمانعلیہ السلام) نے کفر نہیں کیا تھا اور کہا گیا سلیمان (علیہ السلام) کافر نہ تھے ، جو جادو کرتے اور اس پر عمل فرماتے (آیت)” ولکن الشیاطین کفروا “ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور کسائی (رح) حمزہ (رح) نے ” لکن “ تخفیف نون کے ساتھ پڑھا ہے اور (شیاطین) کو رفع یعنی پیش کے ساتھ پڑھا اور باقیوں نے ” ولکن “ نون کی شد کے ساتھ پڑھا اور (شیاطین) کو زبر کے ساتھ پڑھا اور اسی طرح ” ولکن اللہ قتلھم “ اور (آیت)” ولکن اللہ رمی “ اور لکن کا معنی خبر ماضی کی نفی اور مستقبل کا اثبات ۔ (آیت)” یعلمون الناس السحر “ کہا گیا ہے سحر کا معنی علم اور کسی شئی کی مہارت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” وقالوا یایھا الساحر ادع لناربک “ یعنی اے عالم اور صحیح بات یہ ہے کہ سحر ملمع سازی اور خیال میں ڈالنے کا نام ہے ، اہل السنت کے نزدیک سحر ایک موجود حقیقت ہے اور اکثر جماعتوں کا یہی مؤقف ہے لیکن سحر کا عمل کرنا کفر ہے ، حضرت امام شافعی (رح) سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ سحر کی تاثیرات عجیب ہیں ۔ خلاف واقع کو متخیل کردیتا ہے تندرست کو مریض کردیتا ہے اور بسا اوقات اس کے اثر سے قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے حتی کہ حضرت امام شافعی (رح) نے سحر کے ذریعے قتل کرنے والے پر قصاص واجب کیا ہے ، پس جادو شیطان کا عمل ہے جسے شیطان کی تعلیم کے سبب ساحر حاصل کرتا ہے ، جب شیطان سے حاصل کرتا ہے تو پھر اوروں میں اس کو عمل میں لاتا ہے اور کہا گیا ہے کہ جادو اشخاص واعیان میں بھی اثر کرتا ہے تو انسان کو گدھے کی شکل میں کردیتا ہے اور گدھے کو کتے کی شکل کردیتا ہے مگر زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ محض خیال میں ڈالنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی “۔ البتہ جادو جسم میں مرض ، موت ، جنون کے طور پر اثر کرتا ہے اور کلام کا بھی طبعتوں میں اور مزاج میں اثر ہوتا ہے ، کبھی انسان ناگوار کلام سنتا ہے جس سے وہ گرم ہوجاتا ہے اور غضب ناک ہوجاتا ہے اور کبھی اس سے موت بھی واقع ہوجاتی ہے ایک قوم کی موت کلام سے ہ ہوگئی تھی جو انہوں نے سنی تو یہ جادو بھی اور عوارض کی طرح ہے جو بدن میں اثر انداز ہوتے ہیں فرمان الہی (آیت)” وما انزل علی الملکین ببابل “ یعنی وہ کچھ سکھاتے جو ملکین پر نازل کیا گیا تھا ، یعنی بذریعہ الہام وعلم ، پس انزال بمعنی الہام وتعلیم کے ہے اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے پیروی کی اس کی جو ملکین پر نازل کیا گیا تھا حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور حسن ؓ نے ” ملکین “ لام کی زیر کے ساتھ پڑھا ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ دو جادوگر تھے جو بابل میں تھے ۔ حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں دو عجمی کافر سردار تھے کیونکہ فرشتے جادو نہیں جانتے ، بابل سے مراد بابل عراق ہے بابل کو بابل اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمرود کے محل کے گرنے کے وقت زبانیں خلط ملط ہوگئیں تھیں یعنی زبانیں جدا جدا ہوگئیں ، حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ بابل یہی کوفہ کی سرزمین کا نام ہے اور کہا گیا ہے کہ بابل دماوند پہاڑ کی جگہ واقع تھا ، معروف قرات ملکین لام کی زبر کے ساتھ ہے ، اگر کہا جائے کہ فرشتوں سے تعلیم سحر کیسے جائز ہے ؟ کہا جائے گا اس کی دو تاویلیں ہیں۔ پہلی تاویل یہ ہے کہ فرشتے عملا تعلیم سحر نہیں کرتے بلکہ جادو کا بیان کرتے ہیں اس کا باطل ہونا بیان کرتے ہیں اور جادو سے پرہیز کا حکم کرتے ہیں اور تعلیم بمعنی اعلام ہے (یعنی سکھلاتے نہیں بتلاتے ہیں) پس بدبخت ان دونوں کی نصیحت چھوڑتا ہے اور ان کی ہنرمندی سے جادوگری سیکھتا اور اللہ کے ساتھ کفر کرتا اور جو سعید ازلی تھا وہ ترک کردیتا اور ایمان پر باقی رہتا اور وہ دونوں فرشتے سحر کے بطلان کو ظاہر کردیتا اس سے بچنے کا حکم فرماتے ، پس اس میں سیکھنے والے کے لیے بھی امتحان ہے اور سکھلانے والے کے لیے بھی اور اللہ تعالیٰ کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے بندون کا جس طرح چاہے امتحان لے ، اسی کا اختیار ہے اور اسی کا حکم ہے ۔ ” ھاروت وماروت “ دونوں سریانی نام ہیں اور دونوں محل خفض میں ہیں یعنی مجرور (زیر والے) ہیں کیونکہ ہاروت وماروت ملکین کی تفسیر ہیں مگر دونوں لفظوں میں زبر دی گئی (زیر نہیں دی گئی) بوجہ عجمہ اور معرفہ یعنی علم (نام) ہونے کی وجہ (کیونکہ اس طرح دونوں غیر منصرف ہوگئے) اور ان کا قصہ جیسے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور مفسرین نے بیان کیا ، بیشک فرشتوں نے انسانوں کے برے اعمال کو آسمانوں کی طرف حضرت ادریس (علیہ السلام) کے زمانہ چڑھتے دیکھا تو فرشتوں نے عجیب جوئی کی اور کہا یا اللہ ! کیا یہی ہیں جن کو تو نے زمین میں اپنا خلیفہ بنا رکھا ہے اور ان کو منتخب کر رکھا ہے (فضیلت کے لیے) اور یہ آپ کی نافرمانی کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر اے فرشتو ! میں تمہیں زمین میں اتاروں اور تمہارے اندر وہی چیز رکھ دوں جو میں نے اولاد آدم (علیہ السلام) میں رکھی ہے (نفسانی خواہشات) تو تم بھی وہی اعمال بد کرو گے جو اولاد آدم کر رہی ہے ، فرشتے بولے سبحان اللہ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ ہم تیری نافرمانی کریں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو فرشتے منتخب کرو جو تم میں سے بہت بہتر ہوں ، میں ان کو زمین کی طرف اتاروں گا تو فرشتوں نے ہاروت وماروت کا انتخاب کیا جو کہ فرشتوں میں سے صالح ترین اور عابد ترین تھے ۔ کلبی (رح) کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا تین فرشتوں کا انتخاب کرو تو انہوں نے عزائیل جو کہ ہاروت ہے اور عزایا کو جو کہ ماروت ہے انہوں نے گناہ کے ارتکاب پر اپنے ناموں کو بدل ڈالا ، پس اللہ تعالیٰ نے ان میں شہوت کو رکھ دیا اور ان کو زمین کی طرف اتارا اور ان کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلے کریں اور ان کو شرک اور قتل ناحق ، زنا اور شراب پینے سے منع کیا ، بہرحال عزائیل کے دل میں جب شہوت نازل ہوئی تو رب تعالیٰ سے حیا کی وجہ سے سرجھکائے رکھا بہرحال باقی دو اس پر ثابت رہے سارا دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے تھے جب شام کرتے اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم لیتے اور اس کے باعث آسمان کی طرف چڑھ جاتے ۔ حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ابھی ان پر ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے سب کہتے ہیں کہ اس طرح ہوا کہ ان دونوں کی طرف ایک دن زہرہ جھگڑا لے کر آئی ، یہ عورت عورتوں میں سے خوبصورت ترین عورت تھی ، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ اہل فارس میں سے تھی اور علاقہ کی ملکہ تھی ، جب ان دونوں فرشتوں نے اس عورت کو دیکھا تو اس عورت نے ان کے دلوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ، پس ان دونوں میں نے اس عورت کو ورغلایا ، پر وہ نہ مانی اور واپس چلی گئی ۔ دوسرے دن پھر آئی چناچہ دوسرے دن بھی ان دونوں نے اسی طرح کیا یعنی اس عورت کو ورغلایا ، اس دن بھی اس عورت نے انکار کیا اور کہا ایسا نہیں ہوسکتا ۔ یہاں تک کہ تم اس بت کی عبادت کرو جس کی میں عبادت کرتی ہوں اور اس کی طرف نماز پڑھو، ان دونوں نے کہا کہ ان سب چیزوں کی طرف ہمارا راستہ بالکل نہیں ، بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے ، پس زہرہ عورت چلی گئی ، پھر تیسرے دن آئی اور اس کے ساتھ شراب کاپیالہ تھا اور ان دونوں کے دل میں اس عورت کی طرف میلان تھا ، دونوں نے اس کو ورغلایا ، اس عورت نے وہی کل والی شرائط پھر پیش کیں، انہوں نے کہا کہ غیر اللہ کی طرف نماز بڑا گناہ ہے اور بےگناہ قتل بھی (گناہ) عظیم ہے اور ان تینوں میں سے جو آسان کام ہے وہ شرب خمر ہے پس دونوں نے شراب پی اور نشہ میں آگئے اور اس عورت سے زنا کیا، ان دونوں کو ایک شخص نے دیکھا ، انہوں نے اس کو قتل کردیا ، ربیع بن انس ؓ کہتے ہیں کہ ان دونوں فرشتوں نے بت کو سجدہ بھی کیا ، پس اللہ تعالیٰ نے زہرہ کو ستارے کی شکل میں مسخ کردیا ۔ بعض نے کہا ان کے پاس حسین ترین عورت آئی اور اپنے خاوند کے سلسلہ میں جھگڑا کیا ، ان دو میں سے ایک نے دوسرے کو کہا کہ کیا تیرے دل میں بھی وہی بات (شہوت) آگئی ہے جو میرے دل میں واقع ہوئی ہے ؟ دوسرے نے کہا ہاں پس اس نے کہا کہ تو اس عورت کے حق میں اور اس کے خاوند کے خلاف فیصلہ دے گا ؟ اس کے ساتھی نے کہا کیا تو جانتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتنی سزا اور عذاب ہے ؟ دوسرے ساتھی نے کہا کہ کیا تو جانتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہاں عفو ورحمت کس قدر ہے ؟ پس دونوں نے اس عورت سے (اپنی خواہش) طلب کی پس اس عورت نے کہا نہیں مگر یہ کہ تم دونوں میرے حق میں اور میرے خاوند کے خلاف فیصلہ دو ، پس انہوں نے اسی طرح فیصلہ دیا پھر اس عورت کے نفس کے بارے میں سوال کیا ، اس عورت نے کہا کہ نہیں مگر یہ کہ میرے خاوند کو قتل کرو تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ تو جانتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر سزا اور عذاب ہے ؟ اس کے ساتھی نے اس سے کہا کیا تو جانتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عفو ورحمت کس قدر ہے پس اس کے خاوند کو انہیں نے قتل کر ڈالا پھر ان دونوں نے اس عورت سے اس کے نفس سے متعلق درخواست کی ، عورت نے کہا کہ نہیں مگر یہ کہ ہمارا ایک ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اگر تم میرے ساتھ مل کر اس بت کے پاس نماز پڑھو گے تو تمہاری مراد پوری کروں گی ۔ پس ایک نے دوسرے سے وہی کہا جیسے اس نے پہلے سے کہا تھا اور اس کے ساتھی نے بھی اس کو وہی کچھ جواب دیا جیسا کہ پہلے نے جواب دیا تھا چناچہ ان دونوں نے اس کے ساتھ مل کر (بت کے پاس) نماز پڑھی پس وہ عورت ستارے کی شکل میں مسخ کردی گئی ۔ سیدنا حضرت علی ؓ فرماتے ہیں اور کلبی وسدی رحمہم اللہ بھی کہتے ہیں کہ اس عورت نے کہا کہ تم مجھے حاصل نہیں کرسکتے یہاں تک کہ مجھے اس کی خبر دو جس کے ذریعے تم آسمان کی طرف چڑھتے ہو دونوں فرشتوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے اسم اکبر کے باعث ۔ وہ کہنے لگی تم مجھے نہیں پاسکتے حتی کہ تم مجھے وہ اسم اکبر سکھلاؤ تو ایک نے دوسرے کو کہا وہ اس کو سکھا دے ، اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ، دوسرے نے کہا پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کہاں گئی ؟ پس انہوں نے وہ اسم اعظم اس عورت کو سکھلا دیا۔ پس اس عورت نے وہ اسم اعظم بولا اور آسمان کو چڑھ گئی پس اللہ تعالیٰ نے اس کو ستارے کی شکل میں مسخ کردیا بعض اس طرف گئے ہیں کہ یہ زہرہ ستارہ ” بعینھا “ وہی عورت ہے اور دوسروں نے اس کا انکار کیا ہے کہ بیشک زہرہ ستارہ ان سات ستاروں میں سے ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی ہے پس فرمایا (آیت)” فلا اقسم بالخنس الجوار الکنس “ اور جس عورت نے ہاروت وماروت کو فتنے میں ڈالا اس کا نام زہرہ اس کے حسن و جمال کے باعث تھا جب اس نے بدکاری کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے ستارے کی شکل میں مسخ کردیا ۔ کہتے ہیں کہ ہاروت وماروت نے اس گناہ کے ارتکاب کے بعد اس دن شام کو آسمان کی طرف چڑھنا چاہا تو ان کے پروں نے ان کا ساتھ نہ دیا ، پس وہ جان گئے جو کچھ ان پر بلا نازل ہوئی دونوں نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا قصد کیا اور اپنے امر کی خبر دی اور حضرت ادریس (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری شفاعت فرما دیں، حضرت ادریس (علیہ السلام) سے انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کے نیک اعمال آسمان کی طرف اتنی مقدار میں چڑھتے ہیں جتنے اعمال خیر پوری مخلوق کے ہیں پس اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کیجئے ، حضرت ادریس (علیہ السلام) نے شفاعت کی ، اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو دنیا اور آخرت کے عذاب کے مابین اختیار دیا (کہ ان دونوں عذاب میں سے جو چاہو قبول کرلو) ان دونوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دنیا کا عذاب ختم ہوجائے گا ، پس وہ دونوں بابل میں عذاب دیئے جاتے ہیں ، انہوں (مفسرین) نے عذاب کی کیفیت میں اختلاف کیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں وہ دونوں اپنے بالوں کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں تاقیام قیامت لٹکے رہیں گے حضرت عطاء بن ابی رباح (رح) فرماتے ہیں ان دونوں کے سر ان کے پروں کے نیچے جھکے ہوئے ہیں ، حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں ان دونوں کو قدموں سے لے کر رانوں سمیت تک زنجیروں میں جکڑا گیا ہے ، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں ان دونوں کو آگ سے بھرے کنویں میں رکھا گیا ہے ، حضرت عمر بن سعد ؓ فرماتے ہیں دونوں اوندھے منہ ہیں اور لوہے کے ڈنڈوں سے مارا جاتا ہے روایت کیا گیا ہے کہ بیشک ایک شخص نے ہاروت ماروت کا قصد کیا تاکہ ان سے جادو سیکھے ، پس دونوں کو پاؤں کے ساتھ لٹکا ہوا پایا دونوں کی آنکھیں نیلگوں تھیں اور چمڑے سیاہ ان کی زبانوں اور پانی کے درمیان صرف چار انگلی کا فاصلہ تھا اور انہیں پیاس کا عذاب دیا جا رہا تھا ۔ جب اس نے یہ دیکھا تو خوفزدہ ہوگیا اور کہا ” لاالہ الا اللہ “ جب ان دونوں نے سنا تو پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں ایک انسان ہوں ، انہوں نے پوچھا کس امت سے ہو، اس آدمی نے جواب دیا امت محمد ﷺ سے ، انہوں نے پوچھا کیا حضور ﷺ مبعوث ہوچکے ہیں اس نے کہا ہاں ! دونوں نے کہا الحمد للہ اور خوشی کا اظہار کیا، اس آدمی نے پوچھا تمہارا خوش ہونا کس لیے ہے ؟ انہوں نے کہا وہ نبی الساعۃ ہیں، ہمارے عذاب کا ختم ہونا قریب ہوچکا ہے ۔ (آیت)” وما یعلمان من احد “ یعنی کسی کو ایک کو (نہیں سکھاتے) اور من صلہ ہے (حتی) اسے پہلے نصیحت کرتے ہیں ۔ (آیت)” یقولا انما نحن فتنۃ “ آزمائش و امتحان ہیں ۔ (آیت)” فلا تکفر “ یعنی جادو نہ سیکھ ، پس تو اس پر عمل کرے گا ، پھر کفر کر بیٹھے گا ۔ ” فتنۃ “ کا اصل معنی آزمائش و امتحان ہے ۔ اہل عرب کے اس قول سے مشتق ہے ۔ (آیت)” فتنت الذھب والفضۃ “ یہ جملہ اس وقت کہا جاتا ہے جب تو سونے چاندی کو آگ میں پگھلائے تاکہ کھرا کھوٹا معلوم ہو، فتنہ مفرد اس لیے ذکر کیا گیا حالانکہ وہ دو ہیں کیونکہ فتنۃ مصدر ہے اور مصادر تثنیہ جمع نہیں آتیں اور کہا گیا ہے وہ (آیت)” انما نحن فتنۃ فلا تکفر “ بعض مفسرین کا قول ہے وہ فرشتے سیکھنے والے کو سات دفعہ یہی نصیحت کرتے تھے ۔ حضرت عطاء (رح) اور سدی (رح) کہتے ہیں کہ جب سیکھنے والا سیکھنے پر اڑ جاتا تو اس کو کہتے ہیں اس راکھ پر جا اور اس پر پیشاب کر وہ پیشاب کرتا ہے اور پیشاب کرتے ہی اس کے اندر سے ایک چمکتا ہوا نور نکلتا اور آسمان کی طرف چلا جاتا ، یہ ایمان اور معرفت کا نور ہوتا اور اوپر سے ایک سیاہ چیز دھوئیں کی مانند اترتی ہے اور اس شخص کے کانوں میں داخل ہوجاتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے ۔ (اہم نوٹ) : ۔۔۔۔۔۔ منجانب مترجم : ۔ ہاروت وماروت سے متعلق یہ مکمل قصہ مستند نہیں ، اس لیے اس سے مکمل احتراز کرنا چاہیے اس کے غلط ہونے کی وجوہ : ۔ 1۔ فرشتے بالاجماع معصوم ہیں اور گناہ کبیرہ کا صدور منافی عصمت ہے ۔ 2۔ ان دونوں فرشتوں کو اس عذاب شدید میں گرفتار ہونے کے بعد تعلیم سحر کی فرصت کہاں اور لوگوں کو ان تک رسائی اور ان سے اختلاط کیسے ممکن تاکہ سلسلہ تعلیم و تعلم ہو سکے ۔ 3۔ فاسقہ وفاجرہ عورت کو اس خباثت کے باوجود کس طرح ممکن ہوا کہ وہ اسم اعظم کی تاثیر سے آسمان پر چڑھ سکے۔ 4۔ مسخ و تبدیل صورت عذاب کی ایک صورت ہوتی ہے جس میں تحقیر و اہانت ہوتی ہے ستارہ درخشندہ وتابندہ کی شکل میں ہوجانا اور آسمان پر جگہ پالینا یہ تو کمال تعظیم ہے نہ کہ حقارت۔ 5۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم میں شہوت رکھی گئی تو معاصی کرو گے اور جواب میں فرشتوں کا یہ کہنا کہ نہیں ہم نہیں کریں گے یہ قول فرشتوں کا باری تعالیٰ کی تکذیب بھی ہے اور تجہیل بھی ، اس قسم کا قول تو محض ایمان کے بھی منافی چہ جائیکہ فرشتے یہ قول کریں ۔ فائدہ : تمام علوم من جانب اللہ ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے علوم دینیہ اپنی مخلوق تک پہنچانے کے لیے انبیاء ورسل (علیہم السلام) کا انتخاب کیا اور علم سحر کو انسانوں تک پہنچانے کے لیے ان دو فرشتوں کو ذریعہ بنایا ، مذکورہ بنایا ، مذکورہ بالا مضمون تفسیر عزیزی سے ماخوذ ہے ۔ حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں بیشک ہاروت وماروت تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا اور ہر مسئلہ میں ان کے درمیان ایک دفعہ شیطان آتا جاتا ہے ۔ (آیت)” فیتعلمون منھما ما یفرقون بہ بین المرء وزوجہ “ اور وہ کہ ہر ایک کو دوسرے (ساتھی) سے الگ کرلیا جائے اور ایک کو دوسرے کی (نظر میں) طرف مبغوض کردیا جائے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” وما ھم “ کہا گیا ہے یعنی جادوگر اور کہا گیا ہے یعنی شیاطین ” بضارین بہ “ یعنی جادو کے ساتھ (من احد) یعنی کسی ایک کو ” الا باذن اللہ “ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم اور تکوینی فیصلہ کے ساتھ ، پس جادوگر جادو کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے وجود میں (تاثیر کو) لاتے ہیں ، سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں اس کا معنی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے تقدیری فیصلہ اور قدرت مشیت کے ساتھ (آیت)” ویتعلمون مایضرھم “ یعنی جادو ان کو نقصان دیتا ہے (آیت)” ولا ینفعھم ولقد علموا “ مراد یہود ہیں (آیت)” لمن الشتراہ “ یعنی جادو اختیار کیا (آیت)” مالہ فی الاخرۃ “ یعنی جنت میں (من خلاق) کوئی حصہ (آیت)” لبئس ما شروا بہ “ بیچا اس کے ساتھ ” انفسھم “ اپنی ذات کا حصہ جبکہ انہوں نے جادو اور کفر کو دین اور حق پر اختیار کیا (آیت)” لو کانوا یعلمون “ اعتراض : اللہ تعالیٰ نے پہلے فرمایا (آیت)” ولقد علموا لمن الشتراہ “ البتہ تحقیق انہوں نے جان لیا تو اب (آیت)” لوکانوا یعلمون “ فرمانا چہ معنی دونوں کے مفہوم میں ٹکڑاؤ ہے جبکہ پہلے اللہ تعالیٰ فرما چکے ہیں وہ جان گئے ؟ اب فرمایا (آیت)” لو کانوا یعلمون “ جواب میں کہا گیا ہے (آیت)” ولقد علموا “ سے مراد شیاطین ہیں اور (آیت)” لوکانوا یعلمون “ سے مراد یہود ہیں اور کہا گیا ہے دونوں جگہ یہود مراد ہیں لیکن جب یہود نے اپنے علم کے مطابق عمل نہ کیا گویا انہوں نے نہ جانا ۔
Top