Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے اولاد یعقوب میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہل عالم پر فضیلت بخشی
(تفسیر) 122۔: ابن عامر (رح) نے ابراہیم کے لفظکو بعض جگہوں پر ابراھام پڑھا ہے اور یہ تینتیس جگہیں اور کل مقامات ننانوے (99) ہیں جہاں ابراہیم کا لفظ آیا ہے ، ابراہیم عجمی نام ہے اس لیے یہ منصرف نہیں بلکہ غیر منصرف ہے اور یہ ابراہیم بن تارخ اور یہ تارخ آزر بن ناخور ہے، ان کی پیدائش اھواز کے علاقہ سوس میں ہوئی اور کہا گیا ہے کہ بابل میں ہوئی اور کہا گیا ہے کہ مقام کو ثی میں ہوئی اور کہا گیا ہے کسکر کے مقام پر ہوئی اور کہا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت حران میں ہوئی اور ان کے والد نمرود بن کنعان کی سرزمین بابل لے آئے اور ابتلاء کا معنی آزمانا اور امتحان میں ڈالنا ہے اور اس کا معنی امر بھی ہے یعنی حکم دینا ، اللہ تعالیٰ کا بندوں کے آزمانے کا معنی یہ نہیں کہ آزما کر ان کے حالات معلوم کرتا ہے کیونکہ (آزمائے بغیر) اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور ان کے حالات کا عالم ہے بلکہ آزمائش میں حکمت یہ ہوتی ہے کہ ان کے حالات اور لوگ بھی جان لیں اور بعض ، بعض کے حالات سے آگاہ ہوجائیں ، وہ کلمات جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آزمایا، و ہ کیا تھے اس میں انہوں نے اختلاف کیا پس حضرت عکرمہ ؓ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں یہ تیس (30) چیزیں تھیں جنہیں احکام اسلام کا نام دیا گیا ، ان کے ساتھ کسی کو نہیں آزمایا گیا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سب کو پورا کر دکھایا پس ان کے لیے برات لکھ دی گئی ، پس فرمایا (آیت)” وابراھیم الذی وفی “ ان تیس (30) میں سے دس (10) چیزیں سورة برات میں ہیں، ” التائبون العابدون “ سے لے کر آخر تک اور دس (10) چیزیں سورة احزاب میں ہیں (آیت)” ان المسلمین والمسلمات “ سے لے کر آخر تک اور دس (10) چیزیں سورة مؤمنون میں ہیں (آیت)” قد افلح المؤمنون “ سے لے کر آخر تک ۔ اور طاؤس حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دس (10) چیزوں کے ساتھ آزمایا اور یہ دس چیزیں فطرت سلیمہ ہیں ان دس میں سے پانچ کا تعلق سر سے ہے اور وہ یہ ہیں ۔ 1۔ مونچھیں کتروانا، 2۔ کلی کرنا، 3۔ ناک میں پانی کرنا۔ 4۔ مسواک کرنا ، 5۔ سر میں مانگ نکالنا اور پانچ چیزیں باقی بدن سے متعلق ہیں ۔ 1۔ ناخن کترنا۔ 2۔ بغل کے بال اکھاڑنا۔ 3۔ زیر ناف بال مونڈھنا۔ 4۔ ختنہ کرانا۔ 5۔ پانی سے استنجاکرنا۔ ایک خبر میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مونچھیں کتریں اور پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے ختنہ کرایا اور پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے ناخن کاٹے اور پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے بڑھاپا دیکھا ، یعنی ان کے بال سفید ہوئے ، جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑھاپے کے آثار دیکھے یعنی بالوں کو سفید ہوتے دیکھا تو پوچھا اے میرے رب یہ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ، یہ وقار ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے رب ! میرے وقار میں اضافہ فرما ، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں اس آزمائش سے مراد وہی آیات ہیں یعنی ان کا مضمون ہے جو اس کے بعد ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول میں (آیت)” انی جاعلک للناس “ ” اماما “ حضرت ربیع (رح) اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس آزمانے سے مراد احکام حج ہیں ، حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سات چیزوں کے ساتھ آزمایا ۔ 1۔ ستارے ۔ 2۔ چاند۔ 3۔ سورج ۔ پس ان میں بہت اچھی گہری نظرفرمائی اور ان سے اس بات پر استدلال کیا کہ بیشک اس کا رب دائم ہے کبھی زائل نہ ہوگا ۔ 4۔ اور آگ کے ساتھ آزمایا ، پس اس پر صبر کیا ۔ 5۔ اور ہجرت کے ساتھ آزمایا۔ 6۔ اور بیٹے کو ذبح کرنے کے ساتھ آزمایا۔ 7۔ اور ختنہ کرنے کے ساتھ آزمایا ۔ پس ان چیزوں پر صبر کیا ، حضرت سعید بن جبیررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آزمانے سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا یہ قول جب وہ بیت اللہ شریف کی دیواریں اٹھا رہے تھے ۔ (آیت)” ربنا تقبل منا “ الی آخر الآیۃ پس ان دونوں نے سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لاالہ الا اللہ واللہ اکبر “ کے پاکیزہ کلمات کے ساتھ کعبہ کی دیواروں کو بلند کیا یمان بن رباب فرماتے ہیں کہ کلمات سے مراد اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ تھا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کی قوم نے حجت بازی کی ، یہاں تک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” وتلک حجتنا اتیناھا ابراھیم “ اور کہا گیا ہے کہ اس آزمائش سے مراد یہ آیات ہیں (آیت)” الذی خلقنی فھو یھدین “ الی آخر الآیات ۔ پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو تمام کر دکھایا ، حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں ” اتمھن “ کا معنی ہے ” اداھن “ یعنی ان کو پورا پورا ادا کردیا۔ حضرت ضحاک ؓ فرماتے ہیں ” اتمھن “ کا معنی ہے ” قام بھن “ یعنی ان کی ذمہ داری کو پوری طرح نبھایا ، حضرت یمان (رح) فرماتے ہیں ” اتمھن “ کا معنی ہے ” عمل بھن “ یعنی ان کو عمل میں لایا۔ (آیت)” قال انی جاعلک للناس اماما “ ہر خبر میں تیری اقتداء کی جائے گی ، ” قال “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” ومن ذریتی “ یعنی میری اولاد میں سے بھی امام بنا دے جن کی اقتداء کی جائے ، ” قال “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” لاینال “ نہیں پہنچے گا (آیت)” عھدی الظالمین “ حمزہ (رح) اور حفص (رح) نے عہدی کی یاء کو ساکن پڑھا اور باقیوں نے ی کو زبر کے ساتھ پڑھا ، یعنی جوان میں سے ظالم ہوگا اس کو ” یہ وعدہ امامۃ “ نہیں پہنچے گا ۔ حضرت عطا بن ابی رباح (رح) فرماتے ہیں کہ عھدی سے مراد رحمتی ہے (یعنی میری رحمت ظالموں کو نہ پہنچے گی) علامہ سدی (رح) فرماتے ہیں عہدی کا معنی ہے ” نبوتی “ اور کہا گیا ہے اس سے مراد امامۃ ہے، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ ظالم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ظلم میں اس کی اطاعت کی جائے، آیت کا معنی ہوگا کہ جو نبوت و امامت کا میں نے آپ سے کیا یہ میرا عہد اس کو نہیں حاصل ہوگا جو شخص آپ کی اولاد میں سے ظالم ہوگا اور کہا گیا ہے کہ عہد سے مراد ” امان من النار “ ہے (یعنی جہنم کی آگ سے اسے امان حاصل نہ ہوگی) اور ظالم سے مراد مشرک ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت)” الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن “ (اس آیت کریمہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں اس کی صراحت کی گئی)
Top