Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ : اور کون يَرْغَبُ : منہ موڑے عَنْ مِلَّةِ : دین سے اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم اِلَّا مَنْ : سوائے اس کے سَفِهَ : بیوقوف بنایا نَفْسَهُ : اپنے آپ کو وَ لَقَدِ : اور بیشک اصْطَفَيْنَاهُ : ہم نے اس کو چن لیا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَاِنَّهُ : اور بیشک فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : سے الصَّالِحِينَ : نیکو کار
اور ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے بجز اس کے جو نہایت نادان ہو ؟ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہ) صلحاء میں ہوں گے
(تفسیر) 130۔: (آیت)” ومن یرغب عن ملۃ ابراھیم “ اور یہ اس طرح ہوا کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اپنے دو بھتیجوں سلمہ اور مہاجر کو اسلام کی طرف دعوت دی ، پس ان دونوں کو کہا تحقیق تم جانتے ہو کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے کہ میں اولاد اسماعیل (علیہ السلام) سے ایک نبی بھیجنے والا ہوں جس کا نام احمد ﷺ ہوگا پس جو شخص ایمان لایا پس وہ ہدایت پا گیا اور جو ایمان نہ لایا وہ ملعون ہے تو اس پر سلمہ تو ایمان لے آیا اور مہاجر نے اسلام لانے سے انکار کردیا ، اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمائی (آیت)” ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم “ اس کا معنی یہ ہوا کہ جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین اور شریعت کو چھوڑ دیا کہا جاتا ہے ” رغب فی الشیئ “ اس نے کسی چیز میں رغبت کی جب اس شیء کا اس نے ارادہ کیا اور کہا جاتا ہے رغب عنہ جب اس نے اس کو چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” من “ یہ لفظ پوچھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا معنی اس مقام پر ڈانٹ ڈپٹ ہے یعنی کوئی شخص بھی ملت ابراہیم سے اعراض نہیں کرتا (آیت)” الا من سفہ نفسہ ‘ اس جملہ کا معنی حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ” من خسر نفسہ “ ہے یعنی جس شخص نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا ، کلبی کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی ذات کے اعتبار سے گمراہ ہوگیا اور ابوعبیدہ ؓ کہتے ہیں اس کا معنی ہے ” من اھلک نفسہ “ جس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔ ابن کیسان اور زجاج کہتے ہیں اس کا معنی ہے ” من جھل نفسہ “ جو اپنے آپ سے جاہل رہا یعنی جس نے اپنے آپ کو نہ پہچانا ” سفاھۃ “ کا معنی ” جھالۃ “ اور کمزور رائے کا ہونا ہے ہر سفیہ جاہل ہے (بےوقوف) جس نے اللہ تعالیٰ کے ماسوی کی عبادت کی وہ اپنے آپ سے جاہل رہا اور اپنے آپ کو اس نے نہ پہچانا ، تو خالق کو بھی نہ پہچان سکا ، جیسا کہ مقولہ ہے ” من عرف نفسہ فقد عرف ربہ “ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ، روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی ، اپنے آپ کو پہچان اور مجھے پہچان ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے عرض کی ، اے میرے رب ! میں اپنے نفس کو کیسے پہچانوں اور تجھے کیسے پہچانوں ۔ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اپنے نفس کو ضعف کے ساتھ اور عجز وفنا کے ساتھ پہچان یعنی اس حقیقت کو ذہن نشین کرلے تو کمزور ، عاجز اور فامنی ہے اور مجھے قوت قدرت اور بقاء کے ساتھ پہچان کہ میں قوۃ والا قدرۃ والا اور باقی ہوں ، حضرت اخفش ؓ فرماتے ہیں ” سفہ نفسہ “ کا معنی ہے ” سفہ فی نفسہ “ اس صورت میں نفسہ منصوب بنزع الخافض حرف صفت ہوگا ۔ فراء کہتے ہیں نفسہ تفسیر کی بنیاد پر منصوب ہے گویا کہ اصل عبارت تھی ” سفھت نفسہ “ اس کا نفس ناسمجھ نادان ہوا پس جب ” سفھہ “ کا فعل صاحب نفس کی طرف منسوب ہوا تو نفس تفسیر کرنے والا ہوگیا تاکہ جانا جائے کہ ” سفاھۃ کا محل اور مقام کیا ہے یعنی نفس ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ” ضقت بہ ذرعا یا ضاق ذرعی بہ “ یعنی میرے تنگ ہونے کا محل اور مقام ذرع یعنی د ل ہے ۔ (آیت)” ولقد اصطفیناہ فی الدنیا “ اس کو ہم نے دنیا میں منتخب اور چن لیا (آیت)” انہ فی الاخرۃ لمن الصالحین “ وہ آخرت میں نبیوں کے ساتھ جنت میں ہوگا ، حسین بن فضل (رح) فرماتے ہیں کہ اس عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے ، تقدیر عبارت یوں ہوگی ، ”(آیت)” ولقد اصطفیناہ فی الدینا والاخرۃ وانہ لمن الصالحین “ کہ ہم نے اس کو دنیا اور آخرت میں چن لیا اور بیشک وہ صالحین میں سے ہیں ۔
Top