Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 138
صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١٘ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ
صِبْغَةَ : رنگ اللہِ : اللہ وَمَنْ : اور کس کا اَحْسَنُ : اچھا ہے مِنَ اللہِ : اللہ سے صِبْغَةً : رنگ وَنَحْنُ لَهُ : اور ہم اس کی عَابِدُوْنَ : عبادت کرنے والے
(کہہ دو کہ ہم نے) خدا کا رنگ (اختیار کرلیا ہے) اور خدا سے بہتر رنگ کس کا ہوسکتا ہے ؟ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں
(تفسیر) 138۔: (آیت)” صبغۃ اللہ “ کلبی (رح) قتادہ (رح) اور حسن (رح) کی روایت میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ صبغۃ اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور دین کو اللہ تعالیٰ نے رنگ کا نام اس لیے دیا کہ جس طرح کپڑے پر رنگ کا اثر ظاہر ہوتا ہے اسی طرح دین کا اثر بھی دین دار پر نمایاں ہوتا ہے اور بعض نے کہا کہ دین کو رنگ اس لیے فرمایا گیا کہ دین دار بھی دین کو لازم پکڑتا ہے اور جدا نہیں ہوتا جس طرح کہ رنگ کپڑے کے ساتھ لازم ہوجاتا ہے اور جدا نہیں ہوتا ، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ صبغۃ اللہ سے مراد فطرت اللہ ہے اور یہ تاویل اول تاویل کے قریب ہے اور بعض نے کہا کہ صبغۃ اللہ سے مراد سنت اللہ ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ختنہ کرانا ہے کیونکہ ختنہ بھی ختنہ کرانے والے کو خون میں رنگ دیتا ہے ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ بیشک عیسائیوں کے ہاں جب کسی کا بچہ پیدا ہوتا ہے اور بچے پر جب سات دن گزر جاتے تو بچے کو ایک زرد رنگ والے پانی میں جو ان کے ہاں ہوتا ڈبو دیتے ، اس پانی کو معمودیہ کہا جاتا ہے اور بچہ کو اس پانی کے ساتھ رنگ دیتے تاکہ ختنہ کی جگہ اس پانی سے اس بچہ کو پاک کریں جب بچہ کے ساتھ یہ عمل کرتے تو کہتے ” الان صار نصرانیا حقا “ ۔ کہ اب یہ پکا نصرانی بن گیا ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ کا دین ، دین اسلام ہے وہ طریقہ نہیں جو کہ نصرانی لوگ کرتے ہیں (آیت)” صبغۃ اللہ “ کا لفظ برانگیختہ کرنے کے مفہوم کے مطابق منصوب یعنی زبر والا ہے تقدیر عبارت ہوگی ” الزموا دین اللہ “ کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو لازم پکڑو، امام اخفش (رح) فرماتے ہیں صبغۃ اللہ کا لفظ ” ملۃ ابراھیم “ سے بدل کر (آیت)” ومن احسن من اللہ صبغۃ “ یعنی دین کے لحاظ سے اور بعض نے کہا کہ صبغۃ کا معنی تطہیرا ہے تطہیر کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون ہے (آیت)” ونحن لہ عابدون “ ” مطیعون “ یعنی ہم اس کے مطیع اور فرمانبردار ہیں ۔
Top