Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ
: اور
مِنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
مَنْ
: جو
يَّشْرِيْ
: بیچ ڈالتا ہے
نَفْسَهُ
: اپنی جان
ابْتِغَآءَ
: حاصل کرنا
مَرْضَاتِ
: رضا
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
رَءُوْفٌ
: مہربان
بِالْعِبَادِ
: بندوں پر
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے
207۔ (آیت)” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضاۃ اللہ “ اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرنے کے لیے (آیت)” واللہ رؤف بالعباد “ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور ضحاک (رح) سے روایت کی گئی ہے کہ بیشک یہ آیت سریہ رجیع کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ اس طرح کہ کفار قریش نے حضور اقدس ﷺ کی طرف جب کہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں تھے (قاصد) بھیجے بیشک ہم اسلام لا چکے ہیں آپ ہماری طرف اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے چند عالم بھیجئے جو کہ ہمیں دین کی تعلیم دیں ۔ اوریہ ان کا مکر تھا (ان کی طرف سے سازش تھی) تو حضور اقدس ﷺ نے ان کی طرف خبیب بن عدی انصاری ، ؓ مرثد بن ابی مرثد غنوی ؓ ، خالد بن بکیر ؓ ، عبداللہ بن طارق بن شہاب بلوی ، ؓ زید بن دثنہ ؓ کو بھیجا اور ان پر حضرت عاصم بن ثابت بن ابی افلح انصاری ؓ کو امیر مقرر کیا ، حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے دس جاسوس بھیجے اور ان پر حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو امیر مقرر کیا ، پس وہ حضرات چلے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان (جگہ) بطن رجیع میں اترے اور انکے پاس عجوہ کھجور تھی ، پس انہوں نے کھائی پس ایک بڑھیا وہاں گزری اس نے کھجور کی گٹھلیاں دیکھیں توفورا اپنی قوم کے پاس مکہ مکرمہ آگئی اور کہا کہ اس راستہ پر اہل یثرب اصحاب محمد ﷺ چلے ہیں تو فورا ستر آدمی ان میں میں سے سوار ہوئے ، ا ن کے پاس نیزے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ان دس حضرات کا گھیراؤ کرلیا ، حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں انہوں نے ہذیل میں سے ایک قبیلہ کو ذکر کیا جسے بنو لحیان کہا جاتا تھا تو قریبا سو تیر انداز ان کے پیچھے ہو لیے اور انہوں نے ان کے قدموں کے نشانات کا پیچھے کیا یہاں تک کہ انہوں نے ان (اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھجور کھانے کی جگہ کو پالیا، جس جگہ وہ اترے تھے پس انہوں (تیر اندازوں) نے کہا یہ یثرب کی کھجور ہے انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا پیچھا کیا جب حضرت عاصم ؓ نے اور آپ کے ساتھیوں نے ان کو محسوس کیا تو یہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ” فدفد “ (پہاڑی) کی طرف پناہ گزیں ہوئے اور مشرکوں نے ان حضرات کا گھیراؤ کرلیا اور حضرت مرثد ؓ حضرت خالد ؓ عبداللہ بن طارق ؓ کو انہوں نے شہید کردیا ۔ حضرت عاصم بن ثابت ؓ نے ترکش بکھیر دیا اور اس میں سات تیر تھے ، چناچہ حضرت عاصم ؓ نے ان سات تیروں سے سات بڑے مشرک قتل کر ڈالے ، اس کے بعد دعا کی ، یا اللہ ! میں نے دن کے پہلے حصہ میں تیرے دین کی حفاظت کی تو میرے جسم کی دن کے آخری حصہ میں حفاظت فرما ، پھر مشرکوں نے ان کا گھیراؤ کیا اور حضرت عاصم ؓ کو بھی شہید کردیا ، شہید کرنے کے بعد مشرکوں نے حضرت عاصم ؓ کا سر کاٹنے کا ارادہ کیا تاکہ آپ کا سر مشرک عورت سلافہ بنت سعد بن شہید کے ہاتھوں بیچیں اور سلافہ کے بیٹے غزوہ احد میں حضرت عاصم ؓ کے ہاتھوں مارے گئے تھے منت مانی تھی کہ اگر میں عاصم بن ثابت ؓ کے سر پر قادر ہوگئی تو اس کے سر کی کھوپڑی میں شراب پئیوں گی ، پس اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ بھیج دیا جس نے حضرت عاصم ؓ کی حفاظت کی جس کی بنا پر وہ آپ کا سرکاٹنے پر قادر نہ ہوسکے ، چناچہ حضرت عاصم ؓ کا نام ” حمی الدبر “ پڑگیا ، (بھڑوں کے ذریعے حفاظت کئے ہوئے) چناچہ کافر کہنے لگے ابھی اس کو چھوڑ دو جب بوقت شام یہ بھڑیں چلی جائیں گی ہم اس کا سر کاٹ لیں گے ، پس (بوقت شام) سیاہ بادل اٹھا اور برسا جیسے مشکیزے بہہ پڑتے ہیں جس سے وادی نہر کی صورت اختیار کرگئی ، جس نے حضرت عاصم ؓ کو اٹھا کر جنت پہنچا دیا اور پچاس مشرکوں (مرداروں) کو جہنم رسید کیا ، حضرت عاصم ؓ نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہوا تھا کہ نہ مشرک ان کو چھوئے گا اور نہ وہ مشرکوں کو کبھی چھوئیں گے ، حضرت عمر بن خطاب ؓ کو جب یہ قصہ معلوم ہوا تو آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت عجیب ہے کہ بندہ مومن کی حفاظت بھڑوں سے کرائی ، حضرت عاصم ؓ نے نذر مانی ہوئی تھی کہ نہ مشرک ان کو چھوئے گا اور نہ کبھی وہ مشرک کو چھوئیں گے ، حضرت عمر بن خطاب ؓ کو جب یہ قصہ معلوم ہوا تو آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت عجیب ہے کہ بندہ مؤمن کی حفاظت بھڑوں سے کرائی ، حضرت عاصم ؓ نے نذر مانی ہوئی تھی کہ نہ مشرک ان کو چھوئے گا اور نہ کبھی وہ مشرک کو چھوئیں گے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد ان کو اس سے محفوظ رکھا جیسا کہ انہوں نے زندگی بھر اپنے آپ کو محفوظ رکھا، مشرکوں نے حضرت خبیب بن عدی ؓ کو اور زید بن دثنہ ؓ کو قید کیا اور دونوں کو مکہ مکرمہ لے گئے حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے بیٹوں نے خریدا ، حضرت خبیب ؓ نے حارث کو غزوہ بدر میں قتل کیا تھا ، چناچہ حضرت ان کے پاس قیدی بن کر رہے ، چناچہ حارث کے بیٹے اپنے باپ کے عوض حضرت خبیب ؓ کو قتل کرنا چاہتے تھے چناچہ جب انہوں حضرت خبیب ؓ کو قتل کرنے کا عزم مصمم کرلیا تو حضرت خبیب ؓ نے ان سے استرا حاصل کیا تاکہ زیر ناف بال صاف کریں ، استرا حضرت خبیب ؓ کے ہاتھ میں تھا ، بچے کی ماں گھبرا گئی اور چیخی ، حضرت خبیب ؓ نے فرمایا کیا توڈرتی ہے کہ میں بچے کو قتل کروں گا ، میں ایسا کرنے والا نہیں ہوں دھوکہ ہماری شان کے لائق نہیں ۔ اس (واقعہ) کے بعد وہ عورت کہتی تھی واللہ میں نے خبیب ؓ سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا اللہ کی قسم میں نے اس کو ایک دن انگور کھاتے دیکھا حالانکہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور مکہ پاک میں انگور نہ تھے ، بس یہ (غیبی) رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت خبیب ؓ کو دیا تھا پھر کافر حضرت خبیب ؓ کو حدود حرم سے باہر علاقہ حل میں قتل کی غرض سے لے گئے اور کافروں نے ارادہ کیا کہ حضرت خبیب ؓ کو سولی چڑھائیں ، حضرت خبیب ؓ نے فرمایا مجھے دو رکعت نماز پڑھنے دو چناچہ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی ، چناچہ حضرت خبیب ؓ نے بوقت شہادت دو رکعت نماز پڑھنے کی سنت قائم کی پھر فرمایا کہ مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم موت سے گھبراہٹ پر محمول کرو گے میں اور نمازیں پڑھتا (پھر دعا کی) اے اللہ ! ان کو گن گن کر اور جدا جدا کر کے مار اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ حضرت خبیب ؓ کے اشعار کا ترجمہ جو بوقت شہادت انہوں نے فرمائے ، پھر فرمایا ، جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں ہے کہ میرا گرنا کس پہلو پر ہوگا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو رہا ہے ، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کٹے ہوئے اعضاء میں بھی برکت ڈال دے ۔ پس انہوں نے حضرت خبیب ؓ کو زندہ سولی پر لٹکا دیا پس آپ نے فرمایا اللہ ! بیشک تو جانتا ہے کہ اس وقت میرے پاس کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو میرا اسلام تیرے رسول کریم ﷺ تک پہنچائے ، پس تو میرا سلام پہنچا دے ۔ پھر ابو سرعہ عقبہ بن حارث کھڑا ہوا اور اس نے حضرت خبیب ؓ کو قتل کر ڈالا اور کہا جاتا ہے کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس کو سلامان ابو میسرہ کہا جاتا تھا اس کے پاس نیزہ تھا اس نے وہ نیزہ حضرت خبیب ؓ کی چھاتی پر رکھا حضرت خبیب ؓ نے فرمایا ، خدا کا خوف کر اس کہنے سے اس کی سرکشی اور بڑھ گئی اور نیزہ چھاتی سے پار کردیا اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مصداق ہے (آیت)” واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم “ یعنی سلامان کا یہ حال ہے ۔ باقی رہے حضرت زید بن دثنہ ؓ سے صفوان بن امیہ نے خریدا اپنے باپ امیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اور حضرت زید بن دثنہ ؓ کو اپنے غلام نسطاس کے ساتھ علاقہ (حل) تنعیم کی جانب بھیجا ، قریش کا ایک گروہ بھی وہاں جمع ہوگیا جن میں ابو سفیان بھی تھا جب حضرت زید بن دثنہ ؓ کو قتل کے لیے آگے لایا گیا تو ابوسفیان ؓ نے کہا زید کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تیری جگہ محمد ﷺ ہمارے پاس ہوں ہم اس کی گردن مار رہے ہوں اور تو اپنے اہل و عیال میں بیٹھا ہو تو حضرت زید بن دثنہ ؓ نے فرمایا خدا کی قسم ! مجھے تو یہ بات بھی پسند نہیں (یعنی ناقابل برداشت ہے) کہ محمد کریم ﷺ اسی جگہ ہوں جس جگہ اب ہیں یعنی اپنے گھر میں بیٹا رہوں اس پر ابو سفیان کہنے لگامیں نے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو کسی سے اس قدر محبت کرتا ہو جس قدر محمد ﷺ کے ساتھیوں کو محمد کریم ﷺ کے ساتھ ہے پھر نسطاس نے حضرت زید ؓ کو قتل کیا ، پس جب حضور ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو حضور ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کون ہے جو (مکہ جا کر) خبیب ؓ کو سولی کی لکڑی سے اتار لائے اور اس کے لیے (اس عمل کے عوض) جنت ہو۔ حضرت زبیر ؓ نے فرمایا حضور ﷺ یہ کام میں پورا کروں گا اور میرا ساتھی مقداد بن اسود ؓ پھر دونوں رات کے وقت نکل کھڑے ہوئے دن کو چھپ جاتے ، رات کو چل پڑتے ، یہاں تک کہ رات کے وقت مقام تنعیم پہنچے تو حضرت خبیب ؓ کی سولی کے اردگرد مشرکوں کے چالیس جوان نشہ کی نیند سو رہے تھے پس حضرت زبیر مقداد ؓ نے حضرت خبیب ؓ کو سولی سے اتارا ، حضرت خبیب ؓ کا جسم اب بھی تروتازہ تھا ، چالیس دن گزر جانے کے باوجود ان کے جسم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی ، ان کا ہاتھ زخم پر تھا جس سے خون رس رہا تھا ، خون کا رنگ خون والا تھا اور خوشبو کستوری کی تھی ، حضرت زبیر ؓ نے حضرت خبیب ؓ کو گھوڑے پر اٹھا لیا اور چل پڑے ، اتنے میں کفار بیدار ہوگئے ، حضرت خبیب ؓ کو نہ پا کر قریش مکہ خبر دی تو انکے ستر سواروں نے حضرت زبیر ؓ کا پیچھا کیا جب مشرکوں نے ان حضرات کو پالیا تو حضرت زبیر نے حضرت خبیب ؓ کے جسم کو زمین پر پھینک دیا اور زمین حضرت خبیب ؓ کو نگل گئی ، چناچہ حضرت خبیب ؓ کا لقب ” بلیغ الارض “ (زمین کے نگلے ہوئے) پڑگیا ، حضرت زبیر ؓ نے ان مشرکوں کو فرمایا ، اے قریش ! تمہیں ہمارے اوپر (آنے کی یا حملہ کی) جرات کیسے ہوئے پھر سر سے عمامہ اتارا اور فرمایا ، میں زبیر بن عوام ؓ ہوں میری ماں صفیہ بنت عبدالمطلب ہے ، میرا ساتھی مقداد بن اسود ؓ ہے ہم دونوں ان دو شیروں کی مانند ہیں جو اپنے بچوں پر گرے ہوئے ہوں اور دفاع کر رہے ہوں اگر چاہو تو میں تم سے تیر اندازی کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں اگر چاہو تو اتر کر لڑنے کو تیار ہوں ، اگر چاہو تو واپس ہوجاؤ چناچہ کافر واپس لوٹ گئے، حضرت زبیر ومقداد ؓ حضرت کی خدمت میں پہنچے ، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) حضور ﷺ کے پاس موجود تھے ، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا رسول اللہ ﷺ آسمان کے فرشتے ان دو حضرات پر فخر کر رہے ہیں تو حضرت زبیر ؓ اور مقداد ؓ کے بارے میں یہ نازل ہوا (آیت)” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “۔ جب انہوں نے حضرت خبیب ؓ کو سولی سے اتار کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے عوض بیچ دیا اور اکثر مفسرین فرماتے ہیں یہ آیت کریمہ حضرت صہیب بن سنان رومی کے بارے میں نازل ہوئی ، جب ان کو مشرکوں نے ایمان والوں کے ایک گروہ میں پکڑا اور ان پر سختی کی تو حضرت صہیب ؓ نے ان کو فرمایا ، میں بوڑھا آدمی ہوں اس میں تمہارا کچھ نقصان نہیں کہ میں تم میں سے ہوجاؤں یا کسی اور کے ساتھ ، کیا تمہیں یہ منظور ہے کہ تم میرا مال لے لو اور مجھے اور میرے دین کو چھوڑ دو چناچہ انہوں نے ایسا کیا ، حضرت صہیب ؓ نے ان پر شرط لگائی تھی کہ مجھے سواری اپنا خرچہ لے جانے دو گے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا مکہ مکرمہ رہے پھر مدینہ منورہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ نے کچھ لوگوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا ، حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت صہیب ؓ کو فرمایا اے ابو یحی ! تجھے تیرا سودا مبارک ہو ، جوابا حضرت صہیب ؓ نے فرمایا اے ابوبکر ؓ تیرار سودا بھی خسارے کا نہیں ، حضرت صہیب ؓ نے کہا میرے لیے کیا ہے ؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا تیرے بارے اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا ہے پھر یہ آیت پڑھی ، حضرت سعید بن مسیب (رح) اور عطاء (رح) فرماتے ہیں حضرت صہیب ؓ مہاجرین کو حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے ، قریش نے کچھ لوگوں نے حضرت صہیب ؓ کا پیچھا کیا ، حضرت صہیب ؓ اپنی سواری سے اترے اور اپنے ترکش سے تیروں کو نکالا اور فرمایا قریشیو ! تم اس حقیقت کو جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ تیر انداز ہوں ، خدا کی قسم ! میرا ہر ایک تیر تم میں سے کسی نہ کسی کے دل میں پیوست ہوگا اور جب تک میرے پاس ایک تیر بھی باقی ہے تم میرے پاس نہیں پہنچ سکتے ، پھر جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے اسے استعمال کروں گا ، اس کے بعد تم جو چاہو کرنا اور اگر تم چاہو تو میں تمہیں اپنے اس مال کی جو مکہ مکرمہ میں رہنمائی کر دوں اور تم میرا راستہ چھوڑ دو ، انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے چناچہ آپ نے ایسا کیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔ حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں تم جانتے ہو یہ آیت کس کے حق میں نازل ہوئی ؟ یہ اس مسلمان کے حق میں نازل ہوئی جو کسی کافر سے ملتا ہے پس اس کو کہتا ہے کہ لاالہ الا اللہ کہہ وہ کافر یہ کلمہ کہنے سے انکار کرتا ہے پس مسلم کہتا ہے اللہ کی قسم میں اپنی ذات کو ضرور (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) بیچوں گا ، پس کافر سے اکیلا لڑتا ہے حتی کہ قتل ہوجاتا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں نازل ہوئی ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں (آیت)” من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ کا مصداق اس شخص کو دیکھتا ہوں جو کھڑا ہوجاتا ہے ، پس کسی ایک کو خوف خدا کا حکم کرتا ہے پس جب وہ قبول نہیں کرتا اور نخوت اس کو گناہ پر اور زیادہ آمادہ کرتی ہے کہتا ہے اور میں اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بیچتا ہوں ، پس وہ اس سے لڑتا ہے پس اس پر دو آدمی لڑ پڑتے ہیں ، حضرت سیدنا علی ؓ جب یہ آیت پڑھتے تھے تو فرماتے رب کعبہ کی قسم ! وہ دونوں لڑتے ہیں ابو الخلیل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے ایک آدمی کو یہ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ پڑھتے سنا ، پس حضرت سیدنا عمر ؓ نے ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھا ، وہ آدمی کھڑا ہوا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہا ، پس اسی راہ قتل کردیا گیا ، (گویا اس آیت کا مصداق اس قسم کا شخص ہے) ابو غالب نے ابو امامہ ؓ سے روایت کی ، بیشک ایک آدمی نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کون سا جہاد افضل ہے ؟ فرمایا افضل ترین جہاد اس شخص کا ہے جس نے ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہا ۔
Top