Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا قُلْ : آپ کہ دیں فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اِثْمٌ : گناہ كَبِيْرٌ : بڑا وَّمَنَافِعُ : اور فائدے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاِثْمُهُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنْ : سے نَّفْعِهِمَا : ان کا فائدہ وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں قُلِ : آپ کہ دیں الْعَفْوَ : زائد از ضرورت كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرو
(اے پیغمبر ﷺ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
(تفسیر) 219۔: (آیت)” یسئلونک عن الخمر والمیسر “۔ یہ آیت کریمہ سیدنا ، حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ اور چند ایک انصار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی ، یہ حضرات حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں شراب اور جوئے کے بارے میں فتوی دیجئے کیونکہ یہ چیزیں عقل کو لے جانے والی اور مال کو سلب کرنے والی ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور یہ قول مکمل طور پر حرمت شراب سے متعلق ہے جیسا کہ مفسرین نے فرمایا ہے کہ مکہ مکرمہ میں شراب سے متعلق چار آیتیں نازل ہوئیں اور وہ یہ ہیں (آیت)” ومن ثمرات النخیل والاعناب تتخذون منہ سکرا ورزقا “ تو مسلمان پیتے تھے اور ان دنوں یہ مسلمانوں کے لیے حلال تھی ، پر یہ آیت کریمہ حضرت عمر ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کے سوال پر نازل ہوئی (آیت)” قل فیھما اثم کبیر “ پس جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت کے بارے میں پیش رفت فرمائی ہے تو کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ” اثم کبیر “ کے مطابق شراب پینا چھوڑ دیا اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ” و منافع للناس “ کے مطابق پیتے رہے، یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ایک دعوت تیار کی اور لوگوں کو اس دعوت میں بلایا ، اس دعوت میں ان کو شراب پیش کی گئی ، ان حضرات نے پی اور حالت نشہ میں ہوگئے اور نماز مغرب کا وقت آگیا ، انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کیا تاکہ ان کو نماز پڑھائے تو اس امام نے سورة (آیت)” قل یایھا الکافرون “ تلاوت کی اور یوں پڑھا ؛” قل یایھا الکافرون اعبد ماتعبدون “ اسی طرح آخری سورة ” لا “ کو حذف کر کے پڑھا پس اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت)” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ما تقولون “ کہ اے ایمان والو حالت نشہ میں نماز کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ جو کچھ کہو اسے جان لو۔ اس آیت کریمہ کی رو سے اوقات صلوۃ میں نشہ حرام کردیا گیا ، پھر جب یہ آیت (آیت)” لا تقربوا الصلوۃ “ نازل ہوئی تو بعض لوگوں نے شراب پینا چھوڑ دیا اور کہنے لگے کہ اس چیز میں کیا خیر ہوگی جو ہمارے اور نماز کے درمیان حائل ہوجائے اور بعض لوگ اوقات نماز میں شراب نہ پیتے اور باقی اوقات میں پی لیتے ، یہاں تک کہ کوئی بعد نماز عشاء شراب پیتا اور صبح تک نشہ اترچکا ہوتا اور نماز صبح کے بعد پیتا اور نماز ظہر تک ہوش میں آچکا ہوتا ، حضرت عتبان بن مالک ؓ نے ایک دعوت میں لوگوں کو بلایا جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بھی تھے اور ان حضرات کے لیے حضرت عتبان ؓ نے اونٹ کا سر بھونا ، پس انہوں نے کھایا اور شراب بھی پی یہاں تک کہ شراب نے ان میں خوب اثر کیا پھر ان کے بعد وہ آپس میں فخر کرنے لگے اور اشعار پڑھنے لگے تو حضرت سعد ؓ نے ایک قصیدہ پڑھا جس قصیدہ میں انصار کی مذمت کی گئی تھی اور اپنی قوم کے فخر کا بیان تھا تو ایک انصاری نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو اونٹ کے جبڑے کی ہڈی ماری اور حضرت سعد ؓ کا سر پھوڑ دیا ، حضرت سعد ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر انصاری کی شکایت کی حضرت عمر ؓ نے کہا ” اللھم بین لنا فی الخمر بیانا شافیا “ کہ اے اللہ ! شراب کے بارے میں بیان شافی یعنی تسلی بخش بیان ارشاد فرمائیے ، پس اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت سورة مائدہ میں نازل فرمائی الی قولہ (آیت)” فھل انتم منتھون “ اور یہ غزوہ احزاب کے چند روز بعد کی بات ہے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا ” انتھینا یا رب “ یا اللہ ہم رک گئے ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ شراب حرام ہوگئی اور ان دنوں عرب والوں کے لیے اس سے بڑھ کا کوئی عیاشی نہ تھی ۔ اور شراب کی حرمت سے بڑھ کر عرب والوں کے لیے اور کوئی چیز حرمت کے لحاظ سے سخت نہ تھی ، حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں جب سورة مائدہ میں شراب کی حرمت نازل ہوئی تو ہم شراب کے مٹکے لے کر نکلے، ہم میں میں سے بعض نے اپنا مٹکا توڑ ڈالا اور بعض نے اپنا مٹکا پانی اور مٹی سے دھوڈالا ، گویا مدینہ منورہ کی گلیاں چھوڑ دی گئیں، یعنی ان میں شراب بہا کر کچھ مدت توجہ نہ کی گئی پھر جب بارش ہوئی تو ان میں شراب کی رنگت ظاہر ہوئی اور شراب کی بدبو مہ کی ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ شراب کو عربی میں خمر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اس کو دندان میں چھوڑ دیتے حتی کہ وہ خمیر بن جاتی اور متغیر ہوجاتی ، ابن مسیب ؓ سے مروی ہے کہ خمر کو خمر اس لیے کہتے ہیں کہ اسے چھوڑ دیا جاتا یہاں تک کہ اس کا رنگ صفا ہوجاتا اور تلچھٹ بیٹھ جاتی ۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے فرمایا کہ میرے لیے اور کوئی شراب نہ تھی سوائے تمہاری کھجور کے شراب کے اور میں ابوطلحہ اور فلاں فلاں کو کھڑا پلا رہا تھا ، اچانک ایک آدمی آیا جس نے کہا شراب حرام ہوگئی ، پس انہوں نے کہا اے انس ؓ یہ مٹکے انڈیل دے ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد نہ تو انہوں نے شراب کے بارے میں اختلاف کیا ہے ، ایک قوم کہتی ہے کہ یہ انگور یا تازہ کھجور کا نچوڑ ہے جو کہ آگ پر پکائے بغیر سخت ہوجائے اور جوش مارے ، آئمہ کرام کا اس شراب کے بارے میں اتفاق ہے کہ یہ شراب نجس ہے پلید ہے اس کے پینے والے کو حد لگائی جائے اور اس کا پینے والا فاسق ہے اور اس کو حلال سمجھنے والے کو کفر کی طرف منسوب کیا جائے اور سفیان ثوری (رح) ، ابوحنیفہ (رح) اور ایک جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور شراب حرام نہیں ہے اور اس کے علاوہ کسی اور شئی سے بنائی ہوئی شراب کو حرام نہ کہا جائے گا ، مثلا گندم سے، جو سے جوار سے شہد سے اور فانیذ (فانیذ ایک قسم کا حلوہ ہے) سے بنائی گئی شراب حرام نہیں مگر یہ کہ نشہ آور ہو ۔ اگر نشہ لائے تو حرام ہوگی اور انہوں نے کہا جب انگور وتازہ کھجور کا رس اتنا پکایا جائے کہ اس کا آدھا چلا جائے تو وہ حلال ہے لیکن ہے مکروہ اگر اتنا پکایا جائے حتی کہ اس کی دو تہائی چلی جائے انہوں نے کہا وہ حلال ہے ا س کا پینا جائز ہے مگر یہ کہ اس سے نشہ حرام ہے ۔ یہ حضرات اس روایت سے دلیل پکڑتے ہیں جو کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اپنے بعض عمال کو لکھا کہ مسلمانوں کا رزق طلاء سے ہے جس کا (پکانے سے) دو تہائی حصہ چلا جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے ، ابو عبیدہ اور معاذ ؓ کی رائے ہے کہ طلاء جس کا تہائی باقی رہ جائے پینا جائز ہے ایک قوم کا کہنا ہے جب رس پکایا جائے معمولی درجہ کا پکانا وہ حلال ہوجاتا ہے اور یہ اسماعیل بن عتبہ کا قول ہے ، اکثر اہل علم کا مؤقف یہ ہے کہ جس مشروب کا اکثر نشہ آور ہو وہ شراب ہے اور اس کا تھوڑا پینا بھی حرام ہے اس کے پینے والے کو حد لگائی جائے گی ۔ انہوں نے اس روایت سے دلیل دی ہے جو ابو سلمہ نے ام المؤمنین سید طاہرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کی ، وہ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ سے ” بتع “ کا معنی ” نبیذ العسل “ یا عرق انگور کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو مشروب نشہ لائے وہ حرام ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کی کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (جس مشروب) کا زیادہ حصہ نشہ دے اس کا تھوڑا بھی حرام ہے ۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ہر نشہ آور حرم ہے جس نے دنیا میں شراب پی اور وہ بغیر توبہ کے مرگیا جبکہ وہ شراب کا رسیا تھا تو وہ اسے (شراب طہور سے جنت والی) آخرت میں نہ پئے گا ۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے منبر رسول پر خطبہ دیا پس فرمایا بیشک شراب کا حرام ہونا نازل ہوچکا ہے اور یہ شراب پانچ چیزوں سے ہے انگور ، کھجور، گندم، جو ، شہد ، اور خمر (شراب) وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے ، شعبی نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کی وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا بیشک انگور سے شراب ہے ، کھجور سے شراب ہے ، شہد سے شراب ہے، گندم سے شراب ہے جو سے شراب ہے ، پس ثابت ہوا کہ شراب صرف وہ نہیں جو انگور سے بنائی جائے یا کھجور سے بنائی جائے ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے فلاں سے شراب کی بو محسوس کی ہے اور دعوی کیا وہ شراب طلاء ہے (یعنی جو نچوڑ پکایا جائے اور اس کا تہائی حصہ چلا جائے) میں پوچھتا ہوں اس نے کون سے شراب پی ہے ؟ اگر وہ شراب نشہ آور ہے تو میں اس کو کوڑے لگاؤں گا پس حضرت عمر ؓ نے اس شخص کو مکمل حد لگائی ۔ اور جو کچھ کہ روایت کی گئی ہے حضرت عمر ؓ اور ابو عبیدہ ؓ اور معاذ ؓ سے طلاء کے بارے میں پس وہ طلاء ہے جو پکایا جائے حتی کہ نشہ لانے سے نکل جائے یعنی نشہ آور نہ ہو ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے باذق (یہ وہ نچوڑ ہے جسے تھوڑا سا پکایا جاتا ہے یہ بھی نشہ آور ہوتا ہے) کے بارے میں پوچھا تو حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ محمد کریم ﷺ کا حکم باذق کے بارے میں سبقت کرچکا ہے یعنی گزر چکا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” فما اسکر فھو حرام “ جو چیز نشہ لائے وہ حرام ہے ” والمیسر “ یعنی جو حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں آدمی جوا میں اہل و عیال اور مال ومتاع کی بازی لگاتا ہے ، ان دو میں سے جو شخص جوا میں غالب آتا یعنی جوا جیت جاتا وہ دوسرے کا مال اور اہل لے جاتا ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ، ” میسر مفعل “ کے وزن پر ہے ، میسر عرب والوں کے اس قول سے لیا گیا ہے ” یسرلی الشیئ “ یہ جملہ اہل عرب اس وقت بولتے ہیں جب کوئی باآسانی مل جائے پھر قمار جوا کو میسر کہا گیا اور مقامر یعنی جوا باز کو یاسر اور یسر کہا گیا ، اصل جوا ” اشترکشتنی “ یعنی اس اونٹ میں ہوتا تھا جو قابل ذبح ہوتا اور یہ اس طرح کہ عرب مال دار لوگ لائق ذبح اونٹ کو خریدتے پھر اسے نحر کرتے اور اس کے اٹھائیس حصے کرتے پھر اس پر دس تیروں کی قرعہ اندازی کرتے ، ان تیروں کو ازلام اور اقلام کہا جاتا تھا ، ان دس تیروں سے سات تیر حصے والے ہوتے ، فذ تیر کا ایک حصہ ہوتا تو ام تیر کے دو حصے ہوتے رقیب کے تین حصے ہوتے ، حلس تیر کے چار حصے نافس تیر کے پانچ ، حصے ، سبل کے چھ حصے، معلی کے ساتھ حصے اور تین تیر ایسے ہوتے جن کا کوئی حصہ نہ ہوتا اور وہ تین تیر یہ تھے منیح سفیح وغد۔ پھر ان تیروں کو ایک چمڑے کے تھیلے میں کردیتے ، اس تھیلے کا نام ریابہ ہوتا اور وہ تھیلا ایک انصاف پسند آدمی کے ہاتھ کردیتے ، اس آدمی کو محیل اور مفیض کہتے ، پھر وہ آدمی اس تھیلے کو الٹ پلٹ کرتا اور اس میں سے ایک ایک تیر نکالتا ان دس آدمیوں میں سے کسی کے نام ، پس جس کے نام جو تیر نکلتا اپنا حصہ اس تیر کے حوالے سے لے لیتا جس مقدار کا اس کا حصہ ہوتا ، اگر کسی کے نام پر وہ تیر نکلتا جو ان تین تیروں میں سے ہوتا جن کے حصے نہیں تو وہ آدمی کچھ نہ لیتا اور سارے اونٹ کی قیمت کی چٹی اس کو ڈالتے ، بعض نے کہا کہ نہ تو اس شخص کو کچھ حصہ ملتا اور نہ کل اونٹ کی قیمت کی چٹی اس ڈالی جاتی اور تیر بےچلا جاتا ، پھر اس اونٹ کا گوشت فقراء میں تقسیم کردیا جاتا اور یہ لوگ خود کچھ نہ کھاتے ایسا کرنا فخر سمجھتے اور اس میں حصہ نہ لینے والے کی مذمت کرتے اور اس کا نام برم (تھڑدلا) رکھتے اور یہ جو اعرب میں رواج پذیر تمام جوؤں سے برا تھا اور گمراہ کن تھا ، آیت کریمہ سے مراد ہر قسم کا جوا ہے ۔ طاؤس (رح) عطاء (رح) اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں ہر وہ چیز جس میں قمار (جوا) ہو وہ میسر ہے حتی کہ بچوں کا اخروٹ اور گوٹی کا کھیل بھی ، حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ شطرنج (جوا کا وہ کھیل جو 32 مہروں سے 64 خانوں میں کھیلا جاتا ہے) اور نرد چوپڑ بازی بھی میسر ہے (آیت)” قل فیھما اثم کبیر “ جھگڑے کا ، گالی گلوچ اور بدکلامی کا بڑا بوجھ ہے ، حمزہ (رح) اور کسائی (رح) (آیت)” اثم کثیر “ یعنی ثاء کے پڑھا اور باقی قراء نے کبیر باء کے ساتھ پڑھا ہے، شراب اور جوئے میں وہ گناہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ میں کیا ہے (آیت)” انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضا فی الخمر والمیسرویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فھل انتم منتھون “ (ومنافع للناس) شراب کا نفع پینے کی لذت خوشی اور کھانے کا مزہ اور شراب کی تجارت کا نفع اور جوا کا نفع بغیر دمشقت کے مال پالینا اور فقیر لوگوں کا اس سے نفع مند ہونا اور اس میں گناہ یہ ہے کہ جب کسی کا مال جوئے میں بلا عوض چلا جاتا ہے تو یہ بات اس کو بری لگتی ہے پھر وہ اپنے اس ساتھی سے دشمنی رکھتا ہے اور اس کا نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے (آیت)” واثمھما اکبر من نفعھما “ حضرت ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا حرام ہونے کے بعد کا گناہ ان کے حرام ہونے سے پہلے والے نفع سے بڑا ہے اور وہ گناہ وہ دشمنی اور بغض ہے جو اس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ (آیت)” ویسئلونک ماذا ینفقون “ اور یہ اس طرح کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو صدقہ کی ترغیب دی تو انہوں نے کہا ” ماذا تنفق “ ؟ ہم کیا کچھ خرچ کریں پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت)” قل العفو “ ابو عمرو اور حسن (رح) اور قتادہ (رح) اور ابن ابی اسحاقرحمۃ اللہ علیہ نے ” العفو “ کو رفع یعنی پیش کے ساتھ پڑھا ہے پھر معنی ہوگا یا رسول اللہ ﷺ آپ فرما دیں ، ” انفقوا العفو “ عفو خرچ کرو ، مفسرین نے عفو کے معنی میں اختلاف کیا ہے ۔ قتادہ (رح) عطاء (رح) اور سدی (رح) فرماتے ہیں عفو کے معنی ہیں وہ مال جو زائد از حاجت ہو ، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کماتے خرچہ کے مطابق مال روک لیتے اور گھریلوخرچہ سے زائد کو اس آیت کریمہ کے مطابق صدقہ کردیتے ۔ پھر یہ صدقہ (بحیثیت لازم ہونے کے) زکوۃ کے حکم سے منسوخ ہوگیا ، مجاہد (رح) فرماتے ہیں ” العفو “ کے معنی ہیں کہ ایسی صورت میں خرچ کرو کہ خرچ کرنے کے بعد بھی تمہیں غنا حاصل رہے فقیر نہ ہوجاؤ کہ لوگوں پر بوجھ بن جاؤ ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو غنی کی بنیاد پر ہو۔ (یعنی صدقہ دینے کے باوجود غنا باقی رہے) اور اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے اور اس کے ساتھ ابتداء کر (یعنی جو صدقہ دینے کی) جس کا تو سرپرست ہے (یعنی جو لوگ تیری نگرانی میں ہیں) عمر بن دینار (رح) فرماتے ہیں جس میں نہ فضول خرچی ہو اور نہ تنگی ہو وہ ہے درمیانہ درجہ کا خرچ کرنا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا “ طاؤس (رح) فرماتے ہیں جو (خرچ) آسان ہو اور عفو ہر شئی میں ” یسر “ (آسان) کا نام ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے (آیت)” خذالعفو “ یعنی جو لوگوں کی آسان عادات ہوں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کی ، یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس دینار ہے (گویا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اس کو کہاں خرچ کروں) تو حضور ﷺ نے فرمایا اسے اپنی ذات پر خرچ کر (اسی سابقہ مفہوم کے اعتبار سے) اس نے کہا حضور ﷺ میرے پاس ایک اور دینار ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا اس کو اپنی اولاد پر خرچ کر ، اس نے عرض کیا ایک دینار اور بھی میرے پاس ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا اس کو اپنی بیوی پر خرچ کر ، اس نے عرض کی میرے پاس ایک دینار اور ہے، حضور ﷺ نے فرمایا اس کو اپنے خادم پر خرچ کر ، اس نے کہا میرے پاس اور دینار ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا اس سلسلہ میں تو بہتر جانتا ہے (جہاں بہتر سمجھے خرچ کر) (آیت)” کذالک یبین اللہ لکم الایات “ زجاج کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ” کذالک “ فرمایا یعنی واحد حاضر کو خطاب کیا حالانکہ مخاطب جماعت ہے ، اس لحاظ سے ” کذالکم “ ہونا چاہیے تھا جواب میں فرمایا کہ جماعت بمعنی قبیل ہے ، گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” کذالک ایھا القبیل “ اور کہا گیا ہے کہ یہ خطاب حضور ﷺ کو ہے کیونکہ حضور ﷺ کو خطاب ، خطاب امت پر مشتمل ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت)” یا ایھا النبی اذا طلقتم النسائ “ (تو جیسے یہاں خطاب حضور ﷺ کو ہے مراد امت ہے اسی طرح یہاں خطاب حضور ﷺ کو اور مراد امت ہے) (آیت)” لعلکم تتفکرون “۔
Top