Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ اور اپنے لیے (نیک عمل) آگے بھیجو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے رو برو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر ﷺ ایمان والوں کو بشارت سنادو
(تفسیر) 223۔: (آیت)” نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم “۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں ہلاک ہوگیا، حضور ﷺ نے فرمایا کس چیز نے تجھے ہلاک کیا ؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کی آج رات میں نے کجاوہ بدلا ہے (یعنی بیوی سے صحبت ، دوسرے انداز سے کی جو کہ پہلے عام انداز سے مختلف تھا) حضور ﷺ نے جواب نہ دیا ، اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی طرف وحی فرمائی (آیت)” نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم “ یعنی سیدھا لٹا کر جماع کردیا الٹا کر کے البتہ دبر سے بچو اور حالت حیض سے پرہیز کرو۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے کہ جو بیوی سے اوندھا کرکے جماع کرے مگر دخول فرج میں کرے تو ایسی صورت میں بچہ بھینگا پیدا ہوگا ، پس یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (آیت)” نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم “ حضرت مجاہد (رح) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کا طریقہ یہ تھا کہ بیوی سے صرف ایک انداز سے جماع کرتے تھے اور یہ بہت ہی مستور انداز تھا عورت کے لیے انصار کے لوگوں نے یہ انداز جماع یہود سے لیا تھا اور قریش جماع میں بیویوں سے خوب لذت حاصل کرتے ، سامنے کرکے اور اوندھا کرکے اور چت لٹا کر ۔ پس جب مہاجرین مدینہ منورہ پہنچے تو ایک مہاجر نے انصاری عورت سے نکاح کیا تو مہاجر اپنے قریشی آزادنہ طریقہ کار سے جماع کرنا چاہا ، عورت نے اس کا انکار کردیا اور کہا کہ ہم سے ایک ہی انداز سے جماع کیا جاتا تھا تم بھی ایسا ہی کرو ورنہ مجھ سے دور ہو ، یہاں تک کہ ان کی یہ خبر چلی اور یہ معاملہ حضور اقدس ﷺ تک پہنچا پس اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ۔ (آیت)” نساء کم حرث لکم “۔ الآیۃ، یہاں حرث سے مراد بچہ ہونے کی جگہ ہے (آیت)” فاتوا حرثکم انی شئتم “ سامنے سے یا اوندھا کر کے چت لٹا کر اور ” انی “ استفہام کا حرف ہے جس کے ذریعے حال اور محل کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اس کا معنی ہوگا جس طرح تم چاہو اور جہاں سے چاہو بعد اس کے کہ ڈاٹ ایک ہو ۔ حضرت عکرمہ (رح) فرماتے ہیں (آیت)” انی شئتم “ سے مراد صرف فرج یعنی عورت کی شرمگاہ ہے اور اسی طرح (آیت)” حرث لکم “ ہے ” مزرع لکم “ کے معنی میں ہے یعنی کھیتی کی جگہ بچہ پیدا ہونے کی جگہ زمین کی مانند ہے جہاں کاشت کی جاتی ہے اس آیت میں دبر کی طرف سے آنے کے حرام ہونے کی دلیل ہے کیونکہ محل حرث یعنی کھیتی کی جگہ وہ قبل ہے یعنی عورت کی شرمگاہ نہ کہ دبر ، حضرت سعید بن مسیب ؓ فرماتے ہیں یہ حکم عزل سے متعلق ہے (عزل کا مطلب ہے کہ بوقت جماع منی کو شرمگاہ سے باہر کردیا جائے) یعنی اگر تم چاہو تو عزل کرو اور چاہو تو عزل نہ کرو، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے عزل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تیری کھیتی ہے اسے پیاسارکھ یا سیراب کر اور حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ عزل کے لیے باندی سے مشورہ کیا جائے ۔ امام احمد (رح) نے بھی یہی فرمایا ، ایک جماعت نے کہا ہے کہ عزل مکروہ ہے اور کہا کہ یہ واؤ خفی ہے (یعنی ایک قسم کا زندہ درگور کرنا ہے) بذریعہ امام مالک (رح) حضرت نافع ؓ سے روایت کی گئی ۔ حضرت نافع ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے قرآن سیکھتا تھا پس انہوں نے یہ آیت پڑھی (آیت)” نساء کم حرث لکم “۔ فرمایا جانتے ہو کہ یہ آیت کس سے متعلق نازل ہوئی ؟ میں نے کہا میں تو نہیں جانتا آپ نے فرمایا یہ ایک شخص سے متعلق نازل ہوئی جس نے بیوی سے دبر میں جماع کیا ” لواطۃ کی “ پس اس پر گراں ہوا۔ پس یہ آیت نازل ہوئی ۔ امام مالک (رح) سے بیوی کے ساتھ دبر سے جماع کرنے کا جواز منقول ہے مگر ان کے ساتھیوں نے اس کا انکار کیا ہے ، عبداللہ بن حسن سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ سے ملے اور ان سے کہا اے ابو عمر ؓ آپ نے حضرت نافع ؓ کی حدیث عبداللہ ؓ سے کون سی بیان کی کہ وہ اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے کہ عورتوں کو ان کی دبروں کی طرف سے آیا جائے ؟ پس آپ (رح) فرمایا غلام نے جھوٹ بولا اور غلطی کی ، حضرت عبداللہ ؓ نے تو صرف اتنا فرمایا کہ عورتوں سے ان کی شرمگاہوں میں دبروں کی طرف یعنی پیچھے کی طرف سے آیا جائے ، (یعنی مقام تو وہی قبل یعنی شرمگاہ ہو مگر عورت کو اوندھا کرکے اس سے جماع کیا جائے) دبر کی طرف سے آنے یعنی بیوی سے لواطہ کرنے کی حرمت پر دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے عمرو نے خزیمہ بن ثابت ؓ سے روایت کی کہ بیشک ایک آدمی نے حضور ﷺ سے عورتوں کو پیچھے کی طرف سے آنے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دو سوراخوں میں کس سوراخ میں کیا ؟ پیچھے کی طرف سے قبل یعنی شرمگاہ میں جماع کیا تو پھر ٹھیک ہے یا پیچھے کی طرف سے دبر میں کیا یعنی لواطۃ کی تو پھر نہیں یعنی جائز نہیں (اس جگہ حدیث شریف میں تین لفظ خربتین ، خزرتین ، خصفتین مذکور ہیں (تینوں کا معنی ملتا جلتا ہے یعنی سوراخ) حضور ﷺ نے یہ الفاظ فرما کر ارشاد فرمایا پس تحقیق اللہ تعالیٰ حق فرمانے سے حیاء نہیں فرماتا یعنی حق کہنے سے نہیں رکتا ۔ عورتوں کے پاس دبر کی طرف سے نہ آیا کرو یعنی لواطۃ نہ کیا کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کو دبر کی طرف سے آتا ہے یعنی لواطۃ کرنا ہے ۔ (آیت) ’) ’ وقدموا لانفسکم “ حضرت عطاء (رح) فرماتے ہیں (آیت)” قدموا انفسکم “ سے مراد یہ ہے کہ بیوی سے جماع کے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جائے، مجاہد (رح) فرماتے ہیں (آیت)” وقدموا لانفسکم “ سے مراد یہ ہے کہ جب اپنی بیوی کے پاس جماع کے لیے آئے تو دعاء (خیر) مانگے ۔ حضرت کریب ؓ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کے آنے کا ارادہ کرے کہے ” بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطن مارزقتنا “۔ شروع اللہ تعالیٰ کے نام سے اے اللہ ! ہمیں شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو اس سے دور رکھ جو کچھ تو ہمیں رزق عطا کرے (یعنی اولاد) حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر اس دفعہ کے جماع میں میاں بیوی کے مقدر میں بچہ یا بچی ہوئی تو اسے شیطان کبھی ضرر نہ دے گا اور بعض نے کہا ہے کہ (آیت)” قدموا لانفسکم “ سے مراد طلب اولاد ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب انسان فوت ہوتا ہے اس کا (ہر قسم کا) عمل کٹ جاتا ہے مگر تین (ذرائع) سے ۔ 1۔ صدقہ جاریہ (یعنی وہ رفاہی عمل خیر جو اس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا ہوتا ہے) ۔ 2۔ (اس کا) علم جس سے اس کے بعد بھی نفع حاصل کیا جاتا ہو (اس میں تدریس کے اعتبار سے اس کے شادر اور اس کی تقاریر وتصانیف کا سرمایہ خیر) 3۔ نیک اولاد جو اس کے لیے دعاء خیر کرتی رہے ، اور کہا گیا ہے کہ (آیت)” قدموا لانفسکم “ سے مراد پاک دامن عورتوں سے نکاح کرنا ہے تاکہ نیک اولاد پیدا ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی عورت سے نکاح چار وجہوں سے کیا جاتا ہے ۔ 1۔ مال کی وجہ سے ۔ 2۔ خاندانی وجاہت و شرافت سے ۔ 3۔ عورت کے حسن و جمال کی وجہ سے ۔ 4۔ عورت کی دینداری کے باعث تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں دیندار عورت سے نکاح کرنے کامیابی حاصل کر۔ ” تربت یداک “ لالغوی معنی اگرچہ دعائے ذلت و ہلاکت ہے مگر عرف میں جس کام کے سلسلہ میں یہ جملہ وارد ہو اس کے خلاف کرنے میں اظہار تعجب اور اس کام کے کرنے میں ترغیب دینا ہوتا ہے۔ (مترجم) بعض نے کہا ہے (آیت)” قدموا لانفسکم “۔ والی آیت کا معنی تقدیم افراط ہے یعنی چھوٹے بچہ کا مر کر ذخیرہ آخرت بن جانا مراد ہے ، فرط اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو قوم سے آگے بڑھ کر پڑاؤ ڈالنے کے سلسلہ میں پانی وغیرہ ضروریات کا انتظام کرے جیسے حضور اقدس ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو فرمایا ” فرطکم علی الحوض “ کہ میں حوض (کوثر) پر تمہارا فرط ہوں گا سعید بن المسیب نے حضرت سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی مسلمان کے تین بچے فوت ہوں پھر اس کو آگ چھوئے مگر اللہ تعالیٰ کا فرمان پورا ہونے کی حد تک (یعنی صرف آگ کے اوپر گزر جانا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے (آیت)” ان منکم الا واردھا “ کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا گزر جہنم سے نہیں ہوگا) کلبی (رح) اور سدی (رح) فرماتے ہیں کہ (آیت)” قدموا لانفسکم “۔ سے مراد خیر اور عمل صالح ہے اس کی دلیل سیاق آیت یعنی آیت کا مابعد کا حصہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” واتقوا اللہ واعلموا انکم ملقوہ “ ملاقوہ کا معنی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہو پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا (آیت)” وبشر المؤمنین “۔
Top