Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گرپڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا
(آیت)” واذ قلنا للملائکۃ اسجدوا لادم “ ابو جعفر نے پڑھا ” للملائکۃ اسجدوا “ میں ملائکۃ کی تاء کو پیش کے ساتھ اسجدوا کے ہمزہ وصل کے پڑوس میں واقع ہونے کی مناسبت سے کیونکہ اسجدوا کا ہمزہ بھی پیش والا ہے ، اسی طرح (آیت)” قل رب احکم بالحق “ میں رب کی باء کو پیش کے ساتھ پڑھا کیونکہ رب کی باء احکم کے ہمزہ وصل کے پڑوس میں ہے جو کہ مضموم ہے یعنی پیش والا ہے مگر نحویوں نے اسے بالکل ضعیف قرار دیا اور اس قراۃ کو غلطی کی طرف منسوب کیا۔ اور (مفسرین) نے اس امر میں اختلاف کیا کہ یہ خطاب فرشتوں کے ساتھ تھا ، پس بعض نے کہا کہ یہ خطاب ان کے ساتھ تھا جو زمین میں رہتے تھے مگر زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ خطاب تمام فرشتوں کے ساتھ تھا ، یہ بوجہ قول خداوندی کے (آیت)” فسجدالملائکۃ کلھم اجمعون “۔ اور قول خداوندی (اسجدوا) اس میں دو قول ہیں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ سجدہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو حقیقتا سجدہ تھا اور یہ سجدہ اپنے اندر حکم خداوندی کی فرمانبرداری کو لیے ہوئے تھا اور سجدہ سجدہ تعظیمی تھا سجدہ عبادت نہ تھا جیسے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا جیسے اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ذکر کیا گیا ، (آیت)” وخر والہ سجدا “ اور اس سجدہ میں منہ کو زمین پر رکھنا نہ تھا ، اور صرف اور صرف جھکنا تھا جب اسلام آیا تو اس سجدہ کو السلام علیکم کے ذریعے باطل کردیا گیا ، اور کہا گیا ہے : کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ” اسجدوا لادم “ کا معنی ہے یعنی الی آدم “ آدم (علیہ السلام) کی طرف اور سجدہ اللہ تعالیٰ کو تھا ، جیسا کہ کعبہ کو نماز کے لیے قبلہ کیا گیا اور نماز اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ۔ ” فسجدوا “ یعنی فرشتوں نے (سجدہ کیا) ” الا ابلیس “ اور اس کا نام سریانی زبان میں عزازیل اور عربی میں حارث تھا ، پس جب اس نے نافرمانی کی اس کا نام بدل گیا اور صورت بھی بدل گئی ، پس ابلیس کہا گیا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوگیا ۔ (ابلاس کا معنی مایوس ہونا ہے) اور اس میں انہوں نے اختلاف کیا ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ ابلیس جنات میں سے تھا اور فرشتوں میں سے نہ تھا ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق (آیت)” الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ “ کہ مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا جنات میں سے ، پس ابلیس اصل میں جن تھا جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اصل انسان ہیں اور اس لیے بھی ابلیس فرشتہ نہ تھا کیونکہ ابلیس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ، نیز اس لیے بھی ابلیس فرشتہ نہیں کہ ابلیس کی اولاد ہے اور فرشتوں کی اولاد نہیں ہے ۔ اول قول (ابلیس فرشتہ تھا) زیادہ صحیح ہے ، نمبر 1: اس لیے کہ سجدہ کرنے کا خطاب فرشتوں کو تھا (لہذا ابلیس کا مامور بالسجود ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ فرشتہ تھا) باقی رہا اللہ تعالیٰ کے اس قول کا جواب جو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے بارے میں فرمایا (آیت)” کان من الجن “ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابلیس ان فرشتوں میں سے تھا جو خازن جنت ہیں ، (اسی اعتبار سے وہ فرشتے جن کہلاتے ہیں جیسا کہ پہلے گزرا) حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں کہ شیطان ان فرشتوں میں سے تھا جو جنت میں کام کرتے ہیں ، ایک قوم کا کہنا ہے کہ شیطان ان فرشتوں میں سے تھا جو جنتیوں کے زیور ڈھالتے ہیں ، نیز کہا گیا ہے کہ فرشتوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو آگ سے پیدا کیے گئے ہیں اور آنکھوں سے پوشیدہ ہونے کے اعتبار سے جن کہلاتے ہیں ، شیطان انہیں فرشتوں میں سے تھا ۔ اس قول کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے (آیت)” وجعلوا بینہ وبین الجنۃ نسبا “۔ کہ مشرکوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے مابین (رشتہ) نسب قائم کردیا اور یہ مشرکوں کا قول ہے ۔ الملائکۃ بنات اللہ کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو فرشتوں سے نکالا اس کی اولاد بنادی ، قول خداوندی (ابی) یعنی رک گیا اور سجدہ نہ کیا ” واستکبر “ یعنی آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے تکبر کیا ۔ ” وکان “ یعنی اور ہوگیا (آیت)” من الکافرین “ اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ شیطان اللہ تعالیٰ کے علم سابق کے اعتبار سے کافروں میں سے تھا ، ان کافروں میں سے جن کے لیے بدبختی واجب ہوچکی تھی ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب ابن آدم آیت سجدہ پڑھتا ہے اور اس پر سجدہ کرتا ہے تو شیطان جدا ہو کر روتا ہے اور کہتا ہے ہائے اس کی کر ابی ابن آدم کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے بات مان لی (سجدہ کیا) پس اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا ، پس میں نے نافرمانی کی ، پس میرے لیے آگ ہے ۔
Top