Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کردیا بیشک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحب رحم ہے
37۔ (آیت)” فتلقی “۔ تلقی کے معنی پوری فہم و دانش کے ساتھ قبول کرنا اور کہا گیا کہ تلقی کے معنی تعلم کے ہیں (یعنی سیکھنا (آیت)” آدم من ربہ کلمات “ عاصم کی قرآت آدم میم کی پیش کے ساتھ اور کلمات کا لفظ ت کی زیر کے ساتھ اور ابن کثیر نے آدم میم کی زبر کے ساتھ پڑھا اور کلمات کو ت کی پیش کے ساتھ پڑھا ۔ یعنی آدم (علیہ السلام) کے پاس اس کے رب کے پاس سے کچھ کلمات آئے جو ان کی توبہ کا سبب بنے ۔ (کلمات کیا تھے) جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سیکھے ، ان کلمات میں انہوں نے اختلاف کیا ، حضرت سعید بن جبیر ؓ حضرت مجاہد (رح) حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کلمات سے مراد یہ قول ہے (آیت)” ربنا ظلمنا انفسنا “۔ الایۃ “ حضرت مجاہد (رح) محمد بن کعب القرظی ؓ اس سے مراد۔ ” لا الہ انت سبحانک وبحمدک رب علمت سوء وظلمت نفسی فاغفرلی انک انت الغفور الرحیم “۔ (ترجمہ : نہیں کوئی معبود سوائے تیرے تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ اے میرے رب میں نے برائی کا عمل کیا اور اپنے آپ پر ظلم کیا پس مجھے بخش دے ، بیشک تو ہی بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے) ایک روایت میں ” فاغفرلی “ کی بجائے ” فارحمنی “ اور ” انک انت الغفور الرحیم “ کی بجائے ” انک انت ارحم الراحمین “ عبید بن عمیر ؓ فرماتے ہیں ان کلمات سے مراد یہ ہے کہ بیشک حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کی ، اے میرے رب ! مجھے بتائیے کہ جو کچھ میں نے کیا کیا یہ چیز میں نے اپنی طرف سے ایجاد کی ہے یا یہ وہ کچھ ہے جو تو نے میرے اوپر میرے پیدا کرنے سے پہلے مقدر فرمایا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں یہ شئی ایسی ہے جو میں نے تجھے پیدا کرنے سے پہلے تجھ پر مقدر فرمایا ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے رب ! پس جس طرح تو نے اسے میرے حق میں تو نے مقدر فرمایا پہلے اس کے کہ تو مجھے پیدا کرتا مجھے بخش دے اور کہا گیا یہ کلمات تین چیزیں ہیں حیاء دعاء اور بکاء یعنی رونا ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں حضرت آدم (علیہ السلام) وحضرت حواء (علیہ السلام) جنت کی نعمتوں کے فوت ہوجانے پر دو سو سال روئے چالیس دن تک نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا اور سو سال تک حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت حواء (علیہ السلام) کے قریب نہ گئے ۔ (حضرت آدم (علیہ السلام) کے آنسو) مسعود نے یونس بن خطاب اور علقمہ بن مرثد ؓ سے روایت کیا ، دونوں نے کہا اگر روئے زمین کے لوگوں کے آنسو جمع کیے جائیں تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے آنسو بڑھ جائیں گے جب ان سے لغزش ہوئی اور اگر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے آنسو اور تمام انسانوں کے آنسو جمع کیے جائیں تو حضرت آدم (علیہ السلام) کے آنسو زیادہ ہوں گے جب ان کو اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکالا۔ حضرت شہر بن حوشب ؓ فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جب زمین کی طرف اتارے گئے تین سو سال اللہ تعالیٰ سے حیاء کے باعث سر نہیں اٹھاتے تھے، قول خداوندی (آیت)” فتاب علیہ “ پس ان سے درگزر فرمایا (آیت)” انہ ھو التواب “ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ” الرحیم “ اسے خلیفہ بنانے کے اعتبار سے ۔
Top