Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو (معبود) مقرر کرلیا اور تم ظلم کر رہے تھے
(تفسیر) 51۔: (آیت)” واذ واعدنا “ یہ اس باب مفاعلہ سے ہے جو ایک طرف سے ہوتا ہے جیسے کہ اہل عرب کہتے ” عافاک اللہ “ (اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت بخشے) یا عقبت اللعص (میں نے چور کو سزا دی) یا طارقت النعل “ (میں نے جوتے میں کیل ٹھونکی) زجاج فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے قبول کرنا تھا پس اس لیے لفظ مواعدہ سے تعبیر فرمایا ، ابو عمرو اور اہل بصرہ نے (آیت)” واذ وعدنا “ پڑھا یعنی وعد سے ۔ ” موشی “ عبرانی نام ہے جسے عربی بنایا گیا ، عبرانی زبان میں موشی کا معنی پانی اور درخت ہے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نام موسیٰ (علیہ السلام) اس لیے رکھا گیا کہ وہ پانی اور درختوں کے (جھنڈ) سے پکڑے گئے تھے ، پھر عربی میں ش کوس سے بدل دیا گیا ۔ (موشی سے موسیٰ ہوگیا) ” اربعین لیلۃ “ یعنی ان کا پورا ہونا ، ذوالقعدہ سے تیس دن اور دس دن ذوالحجہ کے، اربعین کو لیلہ یعنی رات کے ساتھ ملا کر ذکر کیا گیا دن کے ساتھ ذکر نہ کیا گیا اس لیے کہ عربی مہینے چاند کے حساب سے رکھے گئے ہیں اور چاند رات کو چڑھتا ہے اور کہا گیا یہ اس لیے کہ ظلمت روشنی سے مقدم ہے اور رات دن سے پہلے پیدا کی گئی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” وایۃ لھم اللیل نسلخ منہ النھار “ کہ ان کے لیے (قدرت الہی کی) نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچتے ہیں اور یہ اس لیے کہ جب بنواسرائیل اپنے دشمن سے امان پاگئے اور شہر میں داخل ہوئے تو ان کے لیے نہ کوئی کتاب تھی اور نہ شریعت جو ان کی منتہائے نظر ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وعدہ فرمایا کہ بنو اسرائیل کی طرف کتاب نازل فرمائے گا پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا میں تمہارے رب کی طرف سے میعاد مقرر پر جا رہا ہوں ، ان مقرر ایام میں تمہارے لیے کتا لاؤں گا جس میں ہر اس چیز کا بیان ہوگا جو تم نے کرنا ہے اور جو تم نے چھوڑنا ہے اور ان کو چالیس راتوں کا وعدہ دیا تین ذوالقعدہ سے اور دس ذوالحجہ سے ان پر اپنا خلیفہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو مقرر فرمایا جب وعدہ آن پہنچا تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) گھوڑے پر تشریف لائے جسے فرس الحیات کہا جاتا ہے اس گھوڑے کا پاؤں جس چیز کو لگتا وہ چیز زندہ ہوجاتی اور فرس حیات حضرت جبرئیل (علیہ السلام) اس لیے لیآئے تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے رب تعالیٰ کے حضور لے جائیں ، جب سامری نے یہ صورت حال دیکھی اور سامری سنہار (زرگر) تھا جو کہ اہل باجرمی میں سے تھا اور اس کا نام میخا تھا ، حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں سامری اہل کرمان میں سے تھا حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا ۔ حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ سامری کا تعلق بنی اسرائیل کے قبیلہ سامرہ سے تھا سامری نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو گھوڑے کے پاؤں رکھنے کی جگہ کو دیکھا کہ جہاں اس کا پاؤں پڑھتا ہے کہ وہ مقام سبز ہوجاتا ہے ، دراصل یہ منافق تھا اسلام کو ظاہر کیے ہوئے تھا ، اس کا تعلق گاؤ پرست لوگوں سے تھا جب اس نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اس گھوڑے پر دیکھا تو وہ جان گیا یہ کوئی ذیشان گھوڑا ہے تو اس نے جبرئیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے سموں والی جگہ سے مٹی لے لی ، حضرت عکرمہ ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے دل میں یہ خیال پڑگیا کہ یہ مٹی جس پر ڈالی جائے گی وہ چیز زندہ ہوجائے گی اور بنی اسرائیل نے مصر سے نکلتے وقت شادی کے بہانے قوم فرعون سے بہت سے سونے کے بہت سے زیورات عاریۃ لے لیے تھے پس اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کردیا اور وہ زیورات بنو اسرائیل کے ہاتھ رہ گئے ، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لے گئے تو سامری نے بنی اسرائیل کو کہا کہ تم جو زیورات قوم فرعون سے مانگے تھے وہ مال غنیمت ہیں جو تمہارے لیے حلال نہیں ہیں پس تم گڑھا کھودو اور انہیں دفن کر دو ۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائیں تو ان کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خود فیصلہ فرمائیں گے ، حضرت علامہ سدی (رح) فرماتے ہیں بےحضرت ہارون (علیہ السلام) نے ان کو فرمایا ان زیورات کو گڑھے میں دفن کر دو یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائیں چناچہ انہوں نے ایسا کیا جب تمام زیورات جمع کردیئے گئے سامری نے ان کو ڈھالا۔ بچھڑا بنا کر تین دونوں میں پھر اس میں وہ مٹھی مٹی کی ڈال دی جو اس نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدم والے نشان سے لی تھی پس وہ سونے کا بچھڑا بنا کر نکلا جس پر جواہرات کا جڑاؤ بہت خوبصورت طریقے پر کیا گیا تھا پس اس بچھڑے نے آواز کی آواز کرنا ، علامہ سدی فرماتے ہیں وہ آواز بھی کرتا تھا اور چلتا بھی تھا ، پس سامری نے کہا کہ یہ تمہارا خدا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا ہے جسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھول گئے اور یہاں چھوڑ گئے اور وہاں طلب کرنے گئے ، بنواسرائیل نے وعدہ خلافی کی ، دن کو علیحدہ اور رات کو علیحدہ شمار کیا ، یعنی اس طرح دن رات کو دو دن شمار کیا ، جب بیس دن گزر گئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس نہ لوٹے تو بنو اسرائیل فتنہ میں پڑگئے اور کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تیس راتوں کا وعدہ فرمایا ، پھر دس راتیں بڑھا دی گئیں تو بنی اسرائیل کا فتنہ ان دس راتوں میں ہوا جب دس راتیں گزر گئیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس نہ لوٹے تو بنی اسرائیل نے گمان کای کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فوت ہوگئے اور بچھڑے کو دیکھا اور سامری کی بات سنی تو بنی اسرائیل کے آٹھ ہزار آدمی بچھڑے کے اردگرد عبادت کرنے بیٹھ گئے ۔ اور کہا گیا ہے کہ سب نے عبادت کی سوائے حضرت ہارون (علیہ السلام) اور ان کے بارہ ہزار (12000) ساتھیوں کے یہ قول زیادہ صحیح ہے حضرت حسن (رح) فرماتے ہیں سب نے عبادت کی سوائے حضرت ہارون (علیہ السلام) ایک اکیلے کے پسیہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” ثم اتخذتم العجل “۔ یعنی معبود ” من بعدہ “ ابن کثیر اور حفص نے ” اخذت ، واتخذت “ کی ذال کو ظاہر کیا اور باقیوں نے ذال کو ادغام کیا ، (آیت)” وانتم ظالمون “ گناہ کرکے اپنے کو نقصان دینے والے تھے ، عبادت غیر محل میں رکھنے والے تھے ۔
Top