Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور بادل کا تم پر سایہ کیے رکھا اور (تمہارے لئے) من وسلوٰی اتارتے رہے کہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ پیو (مگر تمہارے بزرگوں نے ان نعمتوں کی کچھ قدر نہ جانی) اور وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ تے تھے بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے تھے
57۔ (آیت)” وظللنا علیکم الغمام “۔ (تم پر بادلوں کا سایہ کیا) جنگل میں جو تمہیں سورج کی گرمی سے بچاتا تھا اور غمام غم سے ہے جس کا اصل معنی چھپانا ستر کرنا ہے بادل کو غمام اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کے چہرے کو چھپاتا ہے اور یہ اس لیے کہ ان کے لیے جنگل میں کسی قسم کا کوئی جھونپڑا وغیرہ نہ تھا جو ان کو چھپاتا تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف شکایت کی ، پس اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سفید اور پتلا بادل بھیجا جو بارش کے بادل سے زیادہ طیب تھا اور ان کے لیے نور کا ستون بھیجا جو ان کے لیے رات کو چمکتا تھا جب رات چاندنی نہ ہوتی (آیت)” وانزلنا علیکم المن والسلوی “ یعنی جنگل میں اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ من ترنجبین تھی ، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں وہ گوند کی طرح ایک چیز تھی جو درختوں پر واقع ہوتی تھی ، اس کا ذائقہ شہد کی طرح تھا ، حضرت وہب (رح) فرماتے ہیں وہ پتلی روٹی تھی ، یعنی چپاتی ۔ حضرت زجاج (رح) فرماتے ہیں اجمالی طور پر ” من “ ہر وہ چیز ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کسی پر بغیر کسی محنت ومشقت کے احسان فرما دیں ، سعید بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ” کماۃ “ یعنی کھنبی من سے ہے اس کا پانی بیماری سے شفاء ہے کہتے ہیں پس یہ من ہر رات ان کے درختوں پر واقع ہوتی تھی جیسے کہ برف ان میں سے ہر انسان کے لیے ایک صاع ہوتا قریبا پونے چار سیر پس وہ بولے اے موسیٰ ہم نے اس من کو اس کی مٹھاس کی وجہ سے قبول کرلیا پس ہمارے لیے اب رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں گوشت کا کھانا عنایت کرے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر سلوی کو نازل فرمایا اور وہ ایک پرندہ ہے جو بیٹر کے مشابہ ہے، بعض نے کہا وہ بعینہ بیٹر ہی تو ہے اللہ تعالیٰ نے بادل کو اٹھایا ، پس اس نے اس پرندے کی بارش کی جو کہ طول وعرض میں ایک میل اور بلندی میں ایک نیزہ تک بعض بعض پر مؤرخ فرماتے سلوی اور شہد پس اللہ تعالیٰ ان پر من وسلوی کو ہر صبح نازل فرماتے طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک ۔ پس ہر ایک ان میں سے اتنا کچھ لیے لیتا جو اسے ایک دن ایک رات کافی ہوتا اور جس دن جمعہ ہوتا تو ہر اک اتنا لیتا جو اسے دو دن کے لیے کافی ہوتا ، یہ اس لیے کہ بروز ہفتہ اس کا نزول نہ ہوتا تھا ، ” کلوا “ یعنی اور کہا ہم نے ان کو کھاؤ ” من طیبات “ حلال چیزوں سے ” ما رزقناکم “ اور کل کے لیے ذخیرہ نہ کرو ، پس انہوں نے کیا ” ذخیرہ “ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے اسے روک دیا اور جو کچھ انہوں نے ذخیرہ کیا تھا وہ خراب ہوگیا اور اس میں کیڑے پڑگئے ، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت)” وما ظلمونا ولکن کانوا انفسھم یظلمون “ یعنی اور ہمارے حق میں انہوں نے کمی کوتاہی نہ کی بلکہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے ، اپنانقصان اس طرح کیا آخرت میں حق تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوئے اور دنیا میں اپنا رزق کھویا جو بلامشقت دنیاوی اور بلاحساب اخروی انہیں ملتا تھا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اگر بنواسرائیل نہ ہوتے تو طعام کبھی خراب نہ ہوتا اور نہ کبھی گوشت بدبودار ہوتا اور اگر حضرت حواء (علیہا السلام) نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند سے کبھی بھی خیانت نہ کرتی ۔
Top