Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 89
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ١ۙ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ١٘ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آئی كِتَابٌ : کتاب مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس مُصَدِّقٌ : تصدیق کرنے والی لِمَا : اس کی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس وَکَانُوْا : اور وہ تھے مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے يَسْتَفْتِحُوْنَ : فتح مانگتے عَلَى الَّذِیْنَ : ان پر جنہوں نے کَفَرُوْا : کفر کیا فَلَمَّا : سو جب جَآءَهُمْ : آیا انکے پاس مَا عَرَفُوْا : جو وہ پہچانتے تھے کَفَرُوْا : منکر ہوگئے بِهٖ : اس کے فَلَعْنَةُ اللہِ : سولعنت اللہ کی عَلَى الْکَافِرِیْنَ : کافروں پر
اور جب خدا کے ہاں سے انکے پاس کتاب آئی جو ان کی آسمانی کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے اور وہ پہلے (ہمیشہ) کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے تو جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس سے کافر ہوگئے پس کافروں پر خدا کی لعنت
(تفسیر) 89۔: (آیت)” ولما جاء ھم کتاب من عند اللہ “ کتاب سے مراد قرآن کریم۔ ہے (آیت)” مصدق لما معھم “ یعنی تورات ” وکانوا “ ‘ یعنی یہود (تھے) (من قبل) حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے ۔” یستفتحون “ نصرت طلب کرتے (آیت)” علی الذین کفروا “ مشرکین عرب پر اور یہ اس طرح جب کوئی بات ان کو غم میں ڈالتی یا دشمن ان پر چڑھ دوڑتا تو وہ کہتے یا اللہ ! ہماری اس نبی آخر الزمان ﷺ میں بھیجے ہوئے کی برکت سے نصرت فرما جس کا بیان ہم تورات میں پاتے ہیں پس ان کی نصرت کی جاتی تھی اور مشرک دشمنوں کو کہتے تھے کہ اس نبی کی تشریف آوری کا وقت قریب آچکا ہے جو ہماری باتوں کی تصدیق لے کر آئیں گے ، تو ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں ایسا قتل کریں گے جیسے کہ قوم عاد، قوم ثمود، اور ارم کو قتل کیا جا رہا ہو۔ (آیت)” فلما جاء ھم ما عرفوا “ یعنی حضرت محمد ﷺ جو کہ بنی اسرائیل سے نہ تھے اور یہود نے حضور ﷺ کی تعریف و توصیف کو جان لیا ۔ ” کفروا بہ “ ضد اور حسد کی وجہ سے ” فلعنۃ اللہ علی الکافرین “ ۔
Top