Tafseer-e-Baghwi - Al-Anbiyaa : 79
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا١٘ وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ١ؕ وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
فَفَهَّمْنٰهَا : پس ہم نے اس کو فہم دی سُلَيْمٰنَ : سلیمان وَكُلًّا : اور ہر ایک اٰتَيْنَا : ہم نے دیا حُكْمًا : حکم وَّعِلْمًا : اور علم وَّسَخَّرْنَا : اور ہم نے مسخر کردیا مَعَ : ساتھ۔ کا دَاوٗدَ : داود الْجِبَالَ : پہار (جمع) يُسَبِّحْنَ : وہ تسبیح کرتے تھے وَالطَّيْرَ : اور پرندے وَكُنَّا : اور ہم تھے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا تھا اور ہم نے پہاڑوں کو داود کا مسخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور جانوروں کو بھی (مسخر کردیا تھا) اور ہم ہی ایسا کرنے والے تھے
79۔ ففھمناھا سلیمان، ، ہم نے حضرت ابراہیم کو اس فیصلہ کا طریقہ سکھادیا۔ وکلا ، اس سے مراد داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان ہیں۔ اتینا ، حکما وعلما، حسن (رح) فرماتے ہیں کہ اگر یہ آیت نہ ہوتی تو فیصلہ کرنے والے ہلاک ہوجاتے لیکن ٹھیک تعریف کرنے والوں کی اللہ نے تعریف کی ہے اور اس اجتہاد کی تعریف کی ہے۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت داؤد کا فیصلہ اجتہاد سے تھا یانص کے ساتھ۔ اسی کے ذریعے سے سلیمان نے فیصلہ کیا۔ بعض نے کہا کہ حضرت سلیمان نے اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کیا ہے اور بعض نے کہا کہ انبیاء کرام کے لیے بھی اجتہاد کرنا جائز ہے تاکہ ان کو بھی مجتہدین کا ثواب حاصل ہوجائے۔ مگریہاں پر حضرت داود سے خطا ہوگئی اور سلیمان مصیب ہوئے اور بعض مفسرین نے کہا کہ انبیاء سے خطا ہوجاتی ہے لیکن اس کو شمار نہیں کیا جاتا اور علماء ان اشیاء میں اجتہاد کرتے ہیں جو قرآن وسنت میں نہیں پاتے ، پھر اگر اس اجتہاد میں غلطی واقع ہوجائے توپھران پر کوئی گناہ نہیں۔ عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب فیصلہ کرنے والافیصلہ کرتا ہے اپنے اجتہاد سے اگر اس کا اجتہاد درست ہوجائے تو اس کو دوہرا اجرملتا ہے اور جب اس نے اجتہاد کے ذریعہ فیصلہ کیا اور اس میں غلطی واقع ہوگئی تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان وحی کے ذریعے سے فیصلہ کرتے تھے اور حضرت سلیمان کا فیصلہ حضرت داؤد کے فیصلہ کے لیے ناسخ ہوتا تھا۔ بعض حضرات کے نزدیک انبیاء اجتہاد کے ذریعے فیصلہ کرنے سے مستغنی ہیں کیونکہ ان پر وحی کا نزول ہوتا ہے اور بعض نے کہا کہ اسی وجہ سے فیصلہ میں کسی نبی سے غلطی واقع نہیں ہوسکتی۔ بعض حضرات نے اس آیت کے ظاہر سے کہتے ہیں کہ ہر مجتہد مصیب ہے اور حدیث میں مجتہد کے لیے ثواب کا وعدہ ہے جب وہ خطا کرلے۔ یہی اصحاب الری کا قول ہے اور ایک جماعت کا قول ہے کہ ہر مجتہد مصیب نہیں بلکہ جب کسی مسئلہ میں مجتہدین کا اختلاف ہوجائے تو ان میں سے کوئی ایک مصیب ہوگا نہ کہ معین شخص۔ اگر ان میں سے ہر ایک شخص مصیب ہوتا تو پھر تقسیم کا کوئی معنی نہیں۔ آپ (علیہ الصلوۃ والسلام) کا فرمان ہے کہ مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کردی تو اس کے لیے ایک اجر ہوگا۔ اس پر یہ اشکال وارد نہیں ہوگا کہ اگر اس کا اجتہاد درست ہوگیا توپھروہ مصیب ہوگابل کہ اجتہاد فی نفسہ عبادت ہے۔ داؤد اور سلیمان علیہماالسلام کادوعورتوں کے درمیان فیصلہ۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا میں نے سنا رسول اللہ فرما رہے تھے دو عورتیں تھیں ہر ایک کا ایک ایک بچہ تھا اس کے ساتھ تھا۔ بھیڑیا آیا، ایک بچہ کو لے گیا ایک عورت نے دوسری سے کہا ، بھیڑیاتوتیرے بچے کو لے کرگیا ہے میرابچہ محفوظ ہے۔ دوسری نے اس کی تردید کی تیرے بچہ کو لے کرگیا ہے۔ میرابچہ یہ ہے جو موجود ہے۔ دونوں نے جھگڑا کیا اور حضرت داؤد کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ نے بڑی کو ڈگڑی دے دی اور چھوٹی ہار گئی ۔ اس کے بعد دونوں کا گذر حضرت سلیمان کی طرف سے ہوا اور آپ سے تفصیل سے بیان کیا حضرت سلیمان نے فرمایا میرے پاس چھری لے آؤ ، میں بچہ کو دوٹکڑے کرکے دونوں کو بانٹ دوں گا، یہ سنتے ہی چھوٹی بولی آپ پر اللہ کی رحمت ہو، یہ بچہ بڑی کا ہی ہے اس کودے دیجئے۔ حضرت سلیمان نے بچہ چھوٹی کو دلوادیا۔ ” وسخرنا مع داؤد الجبال یسبحن والطیر۔ جب حضرت داؤد تسبیح پڑھتے تھے باہر جاتے تھے تو ان کے ساتھ پرندے پہاڑ بھی تسبیح پڑھتے تھیابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا وہب نے کہا کہ حضڑت داوڈ کی تسبیح کے جواب میں پہاڑ میں اللہ کی پاکی بیان کرتے تھے اور پرندوں کا بھی یہی حال تھا، قتادہ نے کہا یعنی حضرت داؤد نماز پڑھتے تھے توپہاڑ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا حضرت داؤد درختوں اور پتھروں کی تسبیح کو سمجھتے تھے ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ ، یسبحن ، مباحت سے ماخوذ ہے۔ اور سباحت کا معنی ہے تیرنا، چلنا) حضرت داؤد (علیہ السلام) چلتے تھے توپہاڑ بھی آپ کے ساتھ چلتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ داؤد جب ذکر کرتے کرتے سست پڑجاتے اور بد میں کچھ کسل آجاتا تو آپ کے ساتھ پہاڑ تسبیح پڑھنے لگتے تاکہ پہاڑوں کی تسبیح سن کر داؤد (علیہ السلام) میں ذکرالٰہی کرنے کی تازہ چستی پیدا ہوجائے اور پرندے بھی آپ کے ساتھ تسبیح میں مشغول رہتے ۔ الطیر کا عطف الجبال پر ہے ، پرندوں کی تو پھر بھی ظاہری زبان ہوتی ہے وہ کچھ نہ کچھ بولتے ہی ہیں لیکن پہاڑوں کی کوئی زبان ظاہر نہیں ہوتی، پہاڑوں کا تسبیح خداوندی میں مشغول ہونا بہت ہی تعجب آفریں ہے اس لیے الجبال کا ذکر الطیر سے پہلے کیا۔ وکنافاعلین۔ حضرت داود کو علم و حکمت کی فہمائش اور پہاڑوں اور پرندوں کی تسخیر ہمارا فعل ہے۔ تفسیر۔
Top