Tafseer-e-Baghwi - Al-Anbiyaa : 80
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ
وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے اسے سکھائی صَنْعَةَ : صنعت (کاریگر) لَبُوْسٍ : ایک لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے لِتُحْصِنَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں بچائے مِّنْ : سے بَاْسِكُمْ : تمہاری لڑائی فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم شٰكِرُوْنَ : شکر کرنے والے
اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک (طرح کا) لباس بنانا بھی سکھا دیا تاکہ تم لڑائی کے ضرر سے بچائے، پس تم کو شکر گذار ہونا چاہئے
80۔ وعلمناہ صنعتہ لبوس لکم، ، لبوس ہر پہننے والی چیز کو کہتے ہیں عرفا اس کا استعمال اسلحہ کے لیے ہوتا ہے۔ اس جگہ لوہے کی زرہ مراد ہے قتادہ نے کہا کہ حضرت داؤد سے پہلے زرہ سپاٹ ہوتی تھی سب سے اول آپ نے جال دراز زرہ بنائی اور کڑیاں جوڑ کر جھول کی شکل دی۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت داؤد اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ ” لتحصنکم ، ، تاکہ وہ صنعت یازرہ تم کو دشمن کے حملے سے محفوظ رکھے ۔ سدی نے کہا اسلحہ کی مار پڑنے سے تم کو محفوظ رکھے۔ من باسکم تمہارے دشمن کے حملے سے۔ ابوجعفر ، ابن عامر، حفص اور عاصم و یعقوب نے لتحصنکم ، تاء کے ساتھ پڑھا ہے اس سے مراد صنعت کاریگری ہے ابوبکر اور عاصم نے نون کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض قراء نے ا س کو یاء کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض نے ، لیحصنکم اللہ، پڑھا ہے ، فھل انتم شاکرون، یہ حضرت داؤد اور ان کے گھروالوں کو کہا گیا اور بعض نے کہا کہ یہ اہل مکہ کو کہا گیا کہ کیا تم اب بھی شکر نہیں خرو گے رسول اللہ کی اطاعت والی نعمت پر۔ ” ولسلیمان الریح عاصفۃ، ہم نے حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا، ہو ان کے حکم کے مطابق حرکت کرتی تھی ہوا کو قبضہ کرنا ہاتھ میں پکڑنا ممکن نہیں۔ البتہ اس کی حرکت سے اس کا احساس ہوتا ہے۔ ریح مذکر ومونثت بھی ہوتا ہے۔ عاصفہ، بہت تیز تند ہوا کو کہاجاتا ہے۔ سوال : بعض جگہ پر آیا ہے کہ ہوا ان کے حکم سے آہستہ اور نرم چلتی تھی اس کا جواب دیا گیا کہ ہوا آپ کے حکم کے تابع تھی جب آپ تیز چلنے کا حکم دیتے تو وہ تیز چلتی تھی۔ اگر حضرت سلیمان کہتے کہ تیز چلے توہ تیز چلتی۔ تجری بامرہ، الی الارض التی بارکنا فیھا۔ اس سے مراد شام ہے۔ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) چاہتے اس کے ذریعے سے کہیں چلے جاتے تھے پھر واپس ملک شام میں آجاتے ۔ وکنا بکل شئی عالمین، ان کو سکھلادیا ۔ عالمین ، اپنی اچھی تدبیر کے ساتھ۔ ہم نے سکھلادیا حضرت سلیمان کو اورہوا وغیرہ کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع بنادینے کی غرض یہ تھی کہ سلیمان (علیہ السلام) اپنے رب کے سامنے جھک جائیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت۔ وہب نے کہا کہ حضرت سلیمان کی مجلس پر پرندے چھائے ہوئے ہوتے تھے جن کھڑے ہوتے تھے اور اس شان و شوکت کے ساتھ آپ جلوہ افروز ہوتے تھے حضرت سلیمان بڑے مرد مجاہد تھے دنیا کے جس حصہ میں کسی بادشاہ کے ہونے کی آپ کو اطلاع ملتی آپ فورا وہاں پہنچ کر اس فرماں رواں کو اطاعت پر مجبور کردیتے۔ اہل روایت کا قول ہے کہ آپ جب کسی جہاد کا ارادہ کرتے تو آپ کے لیے پہلے تختے بصورت تخت بچھائے جاتے ۔ پھر اس پر خیمہ ڈیرہ قائم کیا جاتا پھر آپ اس پر آدمیون کو جانوروں کو اورجنگی سامان کو چڑھواتے پھر حسب الحکم تند ہوا تختوں کے نیچے آجاتی اور سب کو اوپر اٹھاتی اور اوپر پہنچ کر نرم بن جاتی تھی اتنی نرم رفتا ہوتی کسی کھیتی کی طرف سے گزر جاتی تو اس کی پتی بھی نہ ہلتی تھی اس کی رفتار سے گردوغبار بلکل نہ اڑتا تھا نہ کسی کو تکلیف ہوتی۔
Top