Tafseer-e-Baghwi - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے
95۔ و حرام علی قریۃ ، حمزہ کسائی ، ابوبکر نے حرم حاء کے کسرہ کے ساتھ بغیر الف کے پڑھا ہے اور باقی قراء نے الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس میں دونوں لغات ہیں۔ جیسے ، حلہ و حلال ہے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس بستی کو ہم نے تباہ کردیا اس کا دنیا میں واپس لوٹنا ممکن نہیں اس مطلب پر لایرجعون میں لام زائدہ ہوگا۔ اھلکناھا ، کہ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں وہ واپس لوٹ کرآئے۔ اس صورت میں لاصلہ، ہوگا، اور دوسرے قراء نے کہا کہ حرام بمعنی واجب کے ہے۔ اس صورت میں لاثانیہ ہوگا۔ معنی یہ ہوگا کہ واجب ضروری ہے کہ ہم ان بستی والوں کو ہلاک کریں اور ان کے نیک اعمال ختم نہ کریں۔ انھم لایرجعون، دنیا کی طرف نہیں لوٹیں گے ۔ زجاج نحوی کا قول ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ جب ہم کسی بستی کے ہلاک کرنے کا حکم صادر کردیں اور ان کے نیک اعملا کو قبول کریں وہ تو کبھی لوٹنے والے نہیں ہیں یعنی توبہ کرنے والے نہیں ہیں۔ اس معنی پر دلیل ماقبل والی آیت سے ہے جو ابھی اوپر گزری ہے۔ فمن یعمل من الصالحات۔۔۔ تا۔۔ عملہ۔ یعنی اس کے عمل کو ہم قبول کرلیں گے۔ پھر اس کے بعد اس آیت کو ذکر کیا کیونکہ کافر کا نیک عمل قابل قبول نہیں۔
Top