Tafseer-e-Baghwi - Al-Hajj : 25
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اِ۟لْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ١ؕ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا وَيَصُدُّوْنَ : اور وہ روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : اور مسجد حرام (بیت اللہ) الَّذِيْ : وہ جسے جَعَلْنٰهُ : ہم نے مقرر کیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے سَوَآءَ : برابر ۨ الْعَاكِفُ : رہنے والا فِيْهِ : اس میں وَالْبَادِ : اور پردیسی وَمَنْ : اور جو يُّرِدْ : ارادہ کرے فِيْهِ : اس میں بِاِلْحَادٍ : گمراہی کا بِظُلْمٍ : ظلم سے نُّذِقْهُ : ہم اسے چکھائیں گے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
جو لوگ کافر ہیں اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے اور مسجد محترم سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے یکساں (عبادت گاہ) بنایا ہے روکتے ہیں خواہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو اس میں شرارت سے کجروی (وکفر) کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزا چکھائیں گے
تفسیر۔ 25۔ ان الذین کفروا یصدون عن سبیل اللہ۔ مستقبل کا عطف ماضی پر ہے کیونکہ یہاں لفظ مستقبل سے ماضی مراد ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا، الذین کفروا صدو ا عن سبیل اللہ ، بعض نے کہا کہ اس کا معنی ہے ، ان الذین کفروا سے جو ماقبل میں گزرچکے ہیں۔ ویصدون عن سبیل اللہ ، سے حال مراد ہے۔ یعنی وہ روکنے والے ہیں۔ والمسجد الحرام، اور وہ مسجد حرام سے روکتے ہیں۔ الذی جعلناہ للناس، ان کے لیے قبلہ بنایا تاکہ اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں اور حج کرنے کی جگہ بنائی۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے، وضع للناس، ،،۔ سواء ، حفص نے عاصم و یعقوب کے حوالے سے منصوب پڑھا ہے۔ سوائ، اس صورت میں یہ دونوں مفعولوں کی طرف متعدی ہوگا۔ العاکف فیہ والباد، دوسرے قراء نے رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس صورت میں یہ مبتداء ہوگا اور اس کے مابعد والا جملہ خبر کہلائے گا، للناس تک یہ کلام تام ہوجائے گا، عاکف سے مراد مقیمین ہیں۔ العاکف فیہ والباد کی تشریح۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں شہری اور دیہاتی دونوں برابر ہیں خانہ کعبہ کی تعظیم اور حرمت میں اور حج کے مناسک ادا کرنے میں اور اسی طرف مجاہد، حسن اور ایک جماعت گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مسجد حرام ہ ہے۔ اور تسویہ سے مراد کعبہ کی تعظیم اور مسجدحرام میں نماز کی فضیلت افضل ہے۔ اور بیت حرام میں طواف کرنا۔ اس اعتبار سے یہ افضل ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد پوری مسجد حرام ہے تسوی کا معنی ہے یہ مقیم اور بدوی اس میں برابر ہیں کسی کو کسی پر فویقت نہیں جو شخص بھی حرم کے اندر کسی جگہ پہلے ٹھہرجائے اس کو پیچھے آنے والانکال نہیں سکتا۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہماسعید بن جبیر ؓ ک اورابن زید کا قول یہی ہے۔ ان حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ مقیسم ہو یا مسافر حرم کے اندرمکانوں اور فرودگاہوں پر سب کا حق ہے عبدالرحمن بن سابط کا قول ہے کہ حاجی جب مکہ میں آتے ہیں توم کہ کے باشندوں کو بھی اپنے مکانوں پر ترجیحی حقوق باقی نہیں رہے۔ حضرت عمر بن خطاب موسم حج میں لوگوں کو اپنے گھروں کے دروازے بندرکھنے سے منع فرماتے تھے۔ اسی قول کی بناء پر کہ مکہ کے گھروں کو فروخت کرنا اور ان کو اجارہ پر دینا جائز نہیں یہی قول اول ہے اور یہی صواب کے زیادہ لائق ہے۔ یہ قول طاؤس ، عمر بن دینا اور امام شافعی کا ہے ۔ ومن یرد فیہ بالحاد بظلم ، فیہ کی ضمیر مسجد حرام کی طرف راجع ہے خواہ اس سے کعبہ مراد ہو یا عام حرم۔ بالحاد میں باء زائدہ ہے مبرد نے اس بات کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ آیت کا معنی ہے جو شخص حرم میں الحاد کا ارادہ کرے گا ظلم کے ساتھ۔ الحاد کی تفسیر۔ الحاد کے بارے میں آئمہ مفسرین کے مختلف اقوال ہیں مجاہد اور قتادہ کے نزدیک اس جگہ شرک اور غیر اللہ کی پرستش مراد ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ تمام ممنوعات کا ارتکاب مراد ہے خواہ قولی ہو یا فعلی ہو ، یہاں تک کہ خادم کو گالی دینا بھی اس میں داخل ہے عطاء کا قول ہے کہ بغیر احرام کے حرم میں داخل ہونا۔ اورحرم کے اندر کوئی خلاف حرمت حرم کوئی کام کرنا، شکار کرنا، درخت کاٹنامراد ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہماکاقول ہے کہ حرم میں الحادیہ ہے کہ جو شخص تم کو قتل نہ کررہا ہو تم اس کو قتل کردو اور جو شخص تم پر ظلم نہ کررہا ہو تم اس پر طلم کرو، یہ قول ضحاک کا بھی قول ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ مکہ کے اندر گناہ کا درجہ بھی باہر کے گناہ کے مقابلے میں چند گنا ہوجاتا ہے جیسے حرم کے اندر نیکیوں کا درجہ چندگنا ہوتا ہے۔ حبیب بن ابی ثابت کا بیان ہے کہ حرم میں طعام کا ذخیرہ کرنا، عبداللہ بن مسعود کے اس فرمان کے مطابق، من یرد دیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم، کہ جس شخص نے صرف گناہ کا ارادہ کیا اور ارتکاب نہیں کیا تو اس کے اعمال نامے میں گناہ نہیں لکھاجائے گا، لیکن اگر کسی شخص کو مکہ میں قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور جس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا وہ عدن میں ہے یا کسی اور شہریں تو ایسا ارادہ کرنے والے کو عذاب الیم کا مزہ چکھائے گا، سدی کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو عذاب الیم کا مزہ چکھائے گا، مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے۔
Top