Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 3
اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً١٘ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ١ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيْ : بدکار مرد لَا يَنْكِحُ : نکاح نہیں کرتا اِلَّا : سوا زَانِيَةً : بدکار عورت اَوْ مُشْرِكَةً : یا مشرکہ وَّالزَّانِيَةُ : اور بدکار عورت لَا يَنْكِحُهَآ : نکاح نہیں کرتی اِلَّا زَانٍ : سوا بدکار مرد اَوْ مُشْرِكٌ : یا شرک کرنیوالا مرد وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (یعنی) بدکار عورت سے نکاح کرنا مومنوں پر حرام ہے
زانی کی سزا۔ 3۔ الزانی لاینکح، ،، تا۔۔۔ علی المومنین۔ علماء نے اس آیت کے معنی میں اور حکم میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ جب مہاجر مدینہ میں آئے تو ان میں کچھ لوگ بالکل نادار تھے کچھ مال ومتاع نہ تھا اور قبیلہ والے موجود نہ تھے۔ مدینہ میں کچھ پیشہ ور عورتیں رہتی تھں جو خود فروش تھیں او اس زمانے مین مدینہ کے اندر سب سے زیادہ مالدار تھیں۔ کچھ نادار مہاجروں نے ان سے نکاح کرنا چاہا ان کے بےسرمایہ لوگوں کے خرچ کی کفالت وہ عورتیں کرلیں۔ انہوں نے رسول اللہ سے اس کی اجازت طلب کی۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پیشہ ورعوروتوں سے نکاح کرنا مومنوں کے لیے حرام ہے۔ کیونکہ وہ مشرک ہیں۔ یہ قول مجاہد عطاء بن ابی الرباح، قتادہ زہری ، اور شعبی کا قول ہے اور عوفی کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ عنہماکا بھی یہی قول آیا ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا ایک شخص جس کا نام مرثد بن ابی المرثد غنوی تھا۔ وہ قیدیوں کو مکہ سے اٹھا کر مدینہ پہنچاتا تھا اور مکہ میں ایک باغی عورت تھی اس کو عناق کہاجاتا تھا اور وہ اس کی زمانہ جاہلیت میں دوست تھی جب وہ مکہ میں آتا تو وہ اس کو اپنے ہاں بلاتی۔ اس پر مرثد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے زنا حرام قرار دیا اس نے کہا تم میرے ساتھ نکاح کرلو انہوں نے عرض کیا میں اس بارے میں اللہ کے رسول سے پوچھ لوں ؟ وہ نبی کریم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں عناقا سے نکاح کروح ؟ آپ خاموش رہے کوئی جواب نہیں دیا، حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی، آپ نے مجھے بلوایا اور اس آیت کو میرے سامنے تلاوت کی اور مجھے کہا کہ تم اس کے ساتھ نکاح نہ کرنا، ان لوگوں کے نزدیک یہ تحریم خاص انہی لوگوں کے لیے تھی نہ کہ تمام لوگوں کے ساتھ۔ ابن مسعود زانیہ عورت سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے اور یہ ارشاد فرماتے تھے جب زانی زانیہ سے نکاح کرلیتا ہے تو ہمیشہ کے لیے دونوں زانی رہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے ک سزا یافتہ زانی نکاح نہیں کرتا یا نکاح نہ کرے مگر سزا یافتہ زانیہ سے اور سزا یافتہ زانیہ نکاح نہیں کرتی نہ کرے مگر سزا یافتہ زانی سے۔ سعید بن مسیب اور اہل تفسیر کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اسی آیت کی وجہ سے زانیہ سے نکاح حرام تھا۔ لیکن جب یہ آیت، وانکحوالایامی منکم، نازل ہوئی تو اس سے حرمت مذکورہ منسوخ ہوگئی۔ لہذا زانیہ بھی ایامی میں داخل ہے اس لیے اس سے نکاح جائز ہے یہ لوگ اس سے استدلال کرتے ہیں۔ وہ یہ روایت ہے کہ جو حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا یارسول اللہ میری بیوی کسی چھونے والے یا طلب گار کے ہاتھ کو دفع نہیں کرتی۔ فرمایا تو اس کو طلاق دے دے۔ اس شخص نے کہاوہ خوبصورت ہے مجھے اس سے محبت ہے۔ فرمایا تو اس کو اپنے پاس رکھ ۔ دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے کہ تو ایسی حالت میں اسے اپنے پاس روکے رکھ، روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب نے زنا کے سلسلہ میں ایک مرد اور ایک عورت کو پٹوایا اور ان کو ترغیب دی کہ دونوں میں نکاح ہوجائے لیکن مرد نے انکار کردیا۔
Top