Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 5
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : جن لوگوں نے توبہ کرلی مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ : اس کے بعد وَاَصْلَحُوْا : اور انہوں نے اصلاح کرلی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
ہاں جو ان کے بعد توبہ کرلیں اور (اپنی حالت) سنوار لیں تو خدا (بھی) بخشنے والا مہربان ہے
کیا جھوٹی تہمت لگانے والے کی گواہی قابل قبول ہوگی یا نہیں۔ 5۔ الاالذین تابوا۔۔ ،،۔ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ جھوٹی تہمت لگانے والے توبہ کے بعداس کی شہادت قبول کرلی جائے گی اور فسق والاالزام بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ ابن عمر ؓ اور ابن عباس سے مروی ہے اور سعید بن جبیر مجاہد ، عطاء ، طاوس سعیدبن المسیب سلیمان بن یسار، شعبی عکرمہ، اور زہری کا قول ہے اور امام مالک شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ دوسرے حضرات کی اس مسئلہ میں یہ رائے ہے کہ ، محدود فی القذف، کی گواہی کبھی بھی قبول نہیں کی جائے گی، اگرچہ اس نے توبہ کرلی ہو۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ یہاں استثنی ، واو لئک ھم الفاسقون۔ سے ہے یہ قول امام نخعی ، شریح، اور اصحاب الرائے کا ہے انہوں نے کہا نفس قذف کے ذریعے اس کی شہادت رد نہیں کی جائے گی۔ جب تک کہ اس پر حد نہ جاری کردی گئی ہو۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حد لگنے سے پہلے اس میں شر تھا، لیکن جب اس پر حد جاری کردی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن گئی تو پھر کی سے اس کی گواہی اس کی اچھی حالت ہونے کے وقت اس کو رد کردیاجائے گا، اور کیسے اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے جب اس پر حد نہ جاری کردی ہو۔ شعبی کا قول ہے کہ حد قذف محض توبہ سے ساقط ہوجاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا استثنی کل کا کل کے ساتھ ہے اور عام علماء کا قول ہے کہ یہ توبہ سے ساقط ہوجاتی ہے البتہ جس پر تہمت لگائی ہے وہ اس کو معاف کردے توپھر معافی ہوسکتی ہے۔ جیسے قصاص معاف کرنے سے ساقط ہوجاتا ہے لیکن توبہ سے ساقط نہیں ہوتا۔
Top