Tafseer-e-Baghwi - Al-Furqaan : 77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
کہہ دو کہ اگر تم (خدا کو) نہیں پکارتے تو میرا پروردگار بھی تمہاری کچھ پروا نہیں کرتا تم نے تکذیب کی ہے تو اسکی سزا (تمہارے لئے) لازم ہوگی
77۔ قل ما یعبوبکم ربی، مجاہد اور ابن زید کا قول ہے کہ جو کچھ تم کرویانہ کرو تمہاری پرواہ نہیں کرے گا، ابوعبیدہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو شمار کرکے نہیں رکھے گا، اس کا موجود ہونایاموجود نہ ہونا دونوں برابر ہیں۔ تمہارے اعمال کا کوئی وزن مقرر ہے کہ نہیں اس کے متعلق اس کو کوئی پرواہ نہیں۔ لولاء دعاء کم ، اگر تم اس کی پوجا نہیں کرو گے بعض نے اس کا ترجمہ کروایا کہ تمہارا ایمان اور بعض نے کہا کہ تمہاری عبادت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ تم کو دعوت اسلام نہ دیتا اور تم اسلام قبول نہ کرتے تو اس سے تمہاری قدر نہ ہوتی۔ اب جب کہ میں نے تم کو اسلام کی دعوت دے دی اور تم ایمان لائے تو اللہ کے نزدیک تمہاری قدر نمایاں ہوگئی ، بعض نے کہا کہ اللہ کو تم کو پیدا کرنے کی کیا پرواہ ہوتی اگر تمہاری عبادت اور طاعت مقصود نہ ہوتی۔ یعنی اس نے اپنی عبادت کے لیے تم کو پیدا کیا۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے ، وماخلقت الجن والانس، یہ قولابن عباس ؓ عنہماک اورمجاہدکا اور بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ مایبالی بکم، یعنی اللہ کو تمہاری مغفرت کی کیا پرواہ ہے۔ اگر تم اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کونہ پکارو، اگر تم شرک نہ کرو توہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔ اسی مفہوم کی تائید ہورہی ہے جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے، مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم، بعض نے کہا کہ آیت کا مطلب ہے کہ اللہ تمہارے عذاب کی کیا پرواہ کرتا ہے اگر مصائب وشدائد میں تم اس کونہ پکارو۔ اس پر یہ آیت دلالت کرتی ہے ، فاذارکبوا فی الفلک دعواللہ، اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا، فاخذناھم بالباساء واضراء لعلھم یتضرعون۔ بعض حضرات نے کہا کہ اللہ نے اپنی کسی غرض کے لیے تم کو پیدا نہیں کیا، اور نہ اللہ کے نزدیک تمہاری کوئی قدر ہے۔ بغیر اس کے کہ تم اس سے سوال کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو۔ فقد کذبنتم اے کافروخطاب اہل مکہ کو ہے۔ یعنی اللہ نے رسول کے ذریعے سے تم کو اپنی توحید اور عبادت کی دعوت دی لیکن تم نے رسول کی تکذیب کی اور دعوت کو قبول نہیں کیا تواب جنت میں داخل کرنے کا سروسامان اللہ تم کو کس طرح دیگا۔ لزاماکی تفسیر۔ فسوف یکون لزاما، یعنی تمہاری اس تکذیب کی سزا تم کو چمٹی رہے گی اور تم کو گھیرے رہے گی، یا اس تکذیب کا اثر تمہارے ساتھ چسپاں رہے گا، یہاں تک کہ یہ تکزیب تم کو اوندھے منہ دوزخ میں گرادے گی، حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے اس کا ترجمہ موت کیا ہے۔ ابوعبیدہ نے اس کا ترجمہ ہلاکت سے کیا ہے ابن زید نے اس کا ترجمہ قتال سے کیا ہے اور ابن جریر نے کہا ہے ہمیشہ رہنے والا کبھی ختم نہ ہونے والاعذاب۔ لزاما، سے کیا مراد ہے۔ اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ حضرت ابن مسعود ابی بن کعب اور مجاہد نے فرمایا اس سے مراد یوم بدر ہے۔ اس میں ستر کفار مارے گئے۔ اس دن لڑائی میں سترکافرمارے گئے اور سترقید ہوئے۔ اس دن قتل ہوتے ہی عذاب آخرت ان سے چمٹ گیا، حضرت ابن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ، پانچ چیزیں توہوچکیں۔ دخان، شق قمر، روم پر گلبہ، بطشہ، سخت پکڑ، لزاما، بدر کی لڑائی میں کفار کا قتل، بعض نے کہا کہ لزام سے مراد عذاب آخرت ہے۔
Top