Tafseer-e-Baghwi - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سناو
214۔ وانذر عشیرتک الاقربین۔ اور (سب سے پہلے) آپ اپنے قریب ترین کنبہ والوں کو ڈرائیے۔ وانذر عشیرتک الاقربین کی تفسیر۔ یعنی سب سے پہلے اس کو جو آپ کا زیادہ قرابت دار ہو۔ پھر اس سے کم قرابت رکھنے والے کو پھر اس سے کم قرابت دار کو کیونکہ جس کی قرابت زیاد ہ ہے وہ پہلے ہدایت کا مستحق ہے مزید یہ کہ اس طریقہ ہدایت سے دوسروں کو بدگمانی کا بھی موقع نہیں مل سکتا کیونکہ عام طور پر لوگ اپنے قریب ترین عزیزوں سے چشم پوشی کیا کرتے تھے۔ (اور جب آپ قریب ترین عزیزوں کو بھی اللہ کے عذاب سے ڈائیں گے تو کسی کو یہ گمان کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا، کہ آپ اپنے عزیزوں کی طرف چشم پوشی کررہے ہیں) یا اس لیے عزیز ترین قرابت داروں کو ڈرانے کا حکم دیا گیا کہ دوسرے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے عذاب کو دفع کرنے والا کوئی نہیں۔ (پیغمبر بھی اپنے قرابت داروں کو نہیں بچاسکیں گے) نجات کا راستہ یہی ہے کہ ان کی بات مانی جائے اور ان کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔ محمد بن اسحق نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا جب یہ آیت رسول اللہ پر اتری تو آپ نے مجھے طلب فرمایا اور فرمایا علی ، اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریب ترین عزیزوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں۔ میں یہ حکم سن کو سوچ میں پڑگیا کہ میں کیا کروں، مجھے معلوم تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں گا اور اس کام کے لیے پکاروں گا توان کی طرف سے میرے سامنے ایساعمل آگے گا جو مجھے ناگوار ہوگا، یہ سوچ کر میں خاموش رہا لیکن اب جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھ سے آکر کہا کہ محمد اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تم کو عذاب دے گا۔ لہذا علی تم جاکر ایک صاع (آٹے) کی روٹی بنواؤ اور بکری کی ایک ٹانگ (پکاکربطور سالن کے) اس کے ساتھ رکھ دو اور ایک بڑے پیالے میں دودھ بھر کرلے آؤ، پھر اولاد عبدالمطلب کو اکٹھا کرو تاکہ جس بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے میں وہ بات ان کو پہنچادو۔ حضرت علی نے فرمایا، میں نے حکم کی تعمیل کی پھر سب کی دعوت کردی وہ لوگ آئے جن میں رسول اللہ کے تائے، ابوطالب، حمزہ، عباس، ابولہب بھی تھے۔ سب کم وبیش چالیس آدمی تھے جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے وہ کھانا منگوایا جو میں نے تیار کیا تھا، میں نے لاکر رکھ دیا، آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا گوشت کالے کر اپنے دانتوں سے ا س کو کاٹا، پھر اس کو پیالہ میں رکھ دیا پھر فرمایا بسم اللہ کھائیے، سب نے یہاں کھایا یہاں تک کہ سیر ہوگئے۔ خدا کی قسم جتنا کھانا میں نے سب کے لیے رکھا تھا اتنا تو ان می سے ایک آدمی کھالیتا۔ پھر فرمایا ان کو دودھ پلاؤ میں ان کے سامنے وہی دودھ بھراپیالہ لے آیا خدا کی قسم دودھ اتنا تھا کہ اتناتو ایک آدمی پی جاتا لیکن سب پی کرسیر ہوگئے۔ اب رسول اللہ نے کچھ بات کرنے کا موقع پایا لیکن حضور کے کچھ کہنے سے پہلے ابولہب بول اٹھا اور کہنے لگا کہ تمہارے ساتھی نے تم پر جادو کردیا ہے۔ یہ سنتے ہی لوگ منتشر ہوگئے۔ اور رسول اللہ ان سے بات نہ کرسکے اور دوسرے دن حضور نے فرمایا علی تم کو معلوم ہے یہ شخص پہلے بول اٹھا اور میرے بات کرنے سے پہلے ہی لوگ منتشر ہوگئے، اب پھر ویسا ہی کرو اور کھانا تیار کرو جیسا کل کیا تھا اور لوگوں کو پھر جمع کرو میں نے حکم کی تعمیل کی پھر سب کو جمع کیا، حضور نے کھانامنگوایا میں نے سامنے لاکر رکھ دیا آپ نے وہی عمل کیا جو گزشتہ دن کیا تھا، اس کے بعد سب نے کھایا کھاچکنے کے بعد رسول لالہ نے کلام شروع کیا اور فرمایا اے اولاد عبدالمطلب میں میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کرایا ہوں اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو بھی اس کی دعوت دوں تم میں سے کون شخص ہے جو اس کام میں مددر کے اور میرابھائی اور وصی اور نائب ہوجائے لوگ یہ سن کر سب کے سب جھجکے، میں سب سے کم عمر تھا، میں نے کہایانبی اللہ، میں اس کام میں آپ کا مددگار ہوں۔ یہ سن کر آپ نے میری گردن پکری اور فرمایا یہ میرا بھائی میراوصی اور میرانائب ہے تم اس کی بات سنو اورس کا کہامانوا، لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اس نے ہم کو حکم دیا ہم علی ؓ کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ آیت وانذر عشیرتک الاقربین کا شان نزول۔ صحیحین میں سعید بن جبیر کی وساطت سے حضرت ابن عباس ؓ عنہماکابیان آی ا ہے کہ جب آیت وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو حضور کوہ صفا پرچرھ کر مختلف بطون قریش کو پکارناشروع کردیا، اور اے اولاد فہر، اے بنی عدی، آواز سن کر سب لوگ جمع ہوگئے جو خود نہ آسکا اس نے اپناقاصد بھیج دیا تاکہ وہ جاکر دیکھے کہ واقعہ کیا ہے ۔ ابولہب بھی آگیا اور دوسرے قریش والے بھی۔ آپ نے فرمایا بھلابتاؤ اگر میں تم کو اطلاع دو کہ وادی کے اندراس وقت کچھ سوار موجود ہیں جو تم پر تاخت کرنا چاہتے ہیں توکیاتم میری تصدیق کرو گے سب نے کہاجی ہاں، ہم نے اپنے تجربہ میں آپ کا کبھی کوئی جھوٹ نہیں پایا۔ حضور نے فرمایا تو عذاب شدید آنے سے پہلے میں تم کو اس سے ڈرارہا ہوں (عذاب شدید میرے سامنے موجود ہے جو آنے والا ہے) ابولہب بولا تو ہمیشہ ک لیے لیے ہلاک ہوجائے کیا اسی لیے تم نے ہم کو جمع کیا تھا، اس پر سورت ، تبت یدا ابی لھب وتب، آخر تک نازل ہوئی۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آیا ہے کہ جب آیت، وانذر عشیرتک الاقربین، اتری تو رسول اللہ کھڑے ہوئے فرمایا اے گروہ قریش ، (راوی کا بیان ہے کہ یہ لفظ فرمایا یا اسی طرح کوئی دوسرالفظ) اپنی جانوں کو خرید لو (یعنی آنے والے عذاب سے بچالو) میں اللہ (کے عذاب سے تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا) اے اولاد عبدمناف میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تہارے کسی کام نہیں آؤ گا، اے عباس بن عبدالمطلب میں اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے بالکل تمہارے کام نہیں آسکتا اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ تم کو بھی اللہ سے نہیں بچاسکتا، اے محمد کی بیٹی ، فاطمہ میرے مال میں تو جو کچھ مانگنا چاہتی ہے مجھ سے مانگ لے اللہ کے مقابل میں تیرے کوئی کام نہیں آؤں گا۔ حضرت عبداللہ بن حمار مجاشعی کی روایت ہے کہ بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا کہ جو علم اس نے مجھے عطا فرمایا ہے اور تم اس سے واقف نہیں آج تم کو اس کے کچھ حصہ سے وقف کردوں اس نے فرمایا جو مال میں نے اپنے بندوں کو بطور حلال عطا کردیا، وہ ان کے لیے حلال ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا۔ پھر شیطانوں نے پہنچ کر ان کو ان کے دین سے بہکا دیا، اور جو چیز میں نے ان کے لیے حلال کردی تھی شیطانوں نے وہ چیز ان کے لیے حرام قرار دی میں نے ان کو حکم دیا تھا کہ جس چیز کی معبودیت کی ، میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری اس کو میراساجھی نہ قرار دیں، اللہ نے تمام زمین والوں کو دیکھا سب نفرت کی عرب ہوں یاعجمی ہوں۔ اہل کتاب میں سے جو اصلی دین پر باقی رہ گئے تھے ان سے نفرت نہیں کی، اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں اللہ کی نافرمانی اور عذاب سے قریش کو دڑاؤں گا، میں نے عرض کیا اے رب ، وہ تومیراسرتوڑ ڈالیں گے اور میراسر کو کو کچل کر روئی بنادیں گے۔ اللہ نے فرمایا میں نے تجھے اسی لیے بھیجا کہ تیری بھی جانچ کروں اور تیرے ذریعہ سے دوسروں کو بھی۔ میں نے تیرے اوپر ایک کتاب اتاری جس کو پانی نہیں دھوسکتا تو اس کو سوتے جاگتا پڑھاکر تو ان سے جہاد کر کامیاب ہوگا، تو اللہ کے بندوں پر خرچ کر اللہ کی طرف سے تجھ پر خرچ کیا جائے گا، تو ایک لشکر کافروں کے مقابلے میں کے لیے تیار کر میں اس پانچ گنا لشکر تیری مدد کے لیے بھیج دوں گا، اور اپنے فرمانبرداروں کو ساتھ لے کرنا فرمانوں سے جنگ کر، پھر فرمایا ، اہل جنت تین ہیں۔ 1) ۔ منصف حاکم، 2) ہر قرابت دار اور مسلم پر مہربانی کرنے والانرم دل آدمی۔ (3) ۔ دولت مند پاک دامن آدمی جو خود پاکدامن رہتا ہے اور دوسروں کو خیرات دیتا ہے اور دوزخی پانچ ہیں وہ کمزور بےعقل جس میں برائیوں سے روکنے والی سمجھ نہ ہو محض دوسروں کے پیچھے لگ جانے والے والا ہو، اور وہ شخص کہ جب صبح کو اٹھتا ہے تو تم کو تمہارے مال پر عیال کے معاملہ میں فریب دیتا ہے اور وہ شخص کہ اس کا ہر لالچ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو اس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور وہ شخص جو بداخلاق اور فحاش ہے۔ حضور نے بخ (رح) اور کذب کا بھی ذکر کیا تھا۔ واللہ اعلم۔
Top