Tafseer-e-Baghwi - Ash-Shu'araa : 227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَذَكَرُوا اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کیا كَثِيْرًا : بکثرت وَّانْتَصَرُوْا : اور انہوں نے بدلہ لیا مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم ہوا وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اَيَّ : کس مُنْقَلَبٍ : لوٹنے کی جگہ (کروٹ) يَّنْقَلِبُوْنَ : وہ الٹتے ہیں (انہیں لوٹ کر جانا ہے
مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں
227۔ الاالذین امنواعموالصالحات۔۔ بغوی نے شرح السنہ اور معالم میں لکھا ہے کہ حضرت کعب بن مالک نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا یانبی اللہ، شاعری کے متعلق اللہ نے جو کچھ نازل فرمایا وہ معلوم ہی ہے (پھر ہمارا کیا ہوگا) فرمایا مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور زبان سے بھی جہاد کرتا ہے قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم جو اپنی زبانوں سے ان کے تیرمارتے ہو وہ گویا کمانوں سے تیر مارنے کی طرح ہے۔ جہاد میں اشعار کہنا تیروں جیسا اثر رکھتا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ عمرۃ القضا کے موقع پر رسول اللہ مکہ میں داخل ہوئے ابن رواحہ حضور کے آگے آگے چل رہے تھے اور حرم کے اند رشعر پڑھ رہے تھے حضور نے حضرت عمر سے فرمایا عمر اس کو پڑھنے دو یہ اشعار کمانوں کے تیروں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ ان پراثر انداز ہوتے ہیں۔ حضرت براء بن عازب کی روایت ہے کہ غزوہ بنی قریظہ کے دن رسول اللہ نے حضرت حسان بن چابت سے فرمایا مشرکوں کی ہجو کروجبرائیل مدد کے لیے تمہارے ساتھ ہیں یہ بھی رسول اللہ حضرت حسان سے فرما رہے تھے۔ میری طرف سے ان کو جواب دو ۔ اے اللہ روح القدس کے ذریعے سے اس کی مدد کرو۔ حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قریش کی ہجو کرو تمہاری طرف سے یہ ہجو قریش کے لیے تیر لگنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور کو حسان سے یہ فرماتے ہوئے سنا روح القدس برابر تیری مدد پر رہے گا، جب تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے دفاع کرے گا۔ بخاری میں حضرت عائشہ کی روایت سے بیا ن کیا ہے کہ رسول اللہ حسان کے لیے مسجد کے اندر منبررکھوادیتے تھے جس پر وہ کھڑے ہوکر رسول اللہ کی طرف سے فخریہ یادعائیہ کلام پڑھتے تھے اور رسول اللہ فرماتے تھے اللہ روح القدس سے حسان کی مدد کراتا ہے جب تک رسول اللہ کی طرف سے حسان دفاع کرتا ہے۔ حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے رسول اللہ نے فرمایا قریش کی ہجو کرو، یہ ان کے لیے تیر لگنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ پھر ابن رواحہ کے پاس آدمی بھیجا اور ان کو حکم دیا۔ ان کی ہجو کرو اور ان سے ہجو میں مقابلہ کرو لیکن وہ حضور کی خوشی کے مطابق ہجو نہ کرسکے پھر کعب بن مالک کو بلوایا پھر حسان بن ثابت کو بلوایا جب حسان آئے تو فرمایا اب وقت آگیا ہے کہ تم اس شیر کی طرف تیر بھیجو جو دم پٹک رہا ہے یعنی حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ پھر حضرت حسان نے باہر نکلتے ہوئے اسے بلا کر کہاقسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپن یزبان سے ان کو چمڑے کی طرح چیر ڈالوں گا، حضور نے فرمایا جلدی نہ کرو ابوبکر قریش کے نسبوں سے بخوبی واقف ہیں میرانسب بھی قریش کے اند ر ہی ہے۔ ابوبکر میرے نسب کو ان کے اندر سے الگ چھانٹ دیں گے۔ حسان حضرت ابوبکر کے پاس گئے پھر لوٹ کر آئے اور عرض کیا یارسول اللہ، ابوبکر نے آپ کے نسب کو چھانٹ دیا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں آپ کو ان کے اندر سے اس طرح کھینچ نکالوں گاجی سے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیاجاتا ہے ۔ حسان نے یہ شعر کہے،: ھجوت محمد افاجبت عنہ، ،، وعنداللہ فی ذالک الجزائ۔ تونے محمد ﷺ کی ہجو کی میں نے ان کی طرف سے جواب دیا اللہ کے ہاں اس کا بدلہ ہے۔ ھجوت محمد حنفیا، ،، ، رسول اللہ شیمتہ الوفائ۔ تونے مقدس پرہیزگار محمد کی ہجور کی جو اللہ کے رسول ہیں اور ان کی خصلت وفاعہد ہے۔ فان ابی ووالدتی وعرضی، ،، لعرض محمد منکم وقائ، میرے ماں باپ اور میری آبرومحمد ﷺ کی آبروکوتم سے بچانے والی ہے یعنی محمد صلی اللہ پر آبرو سب قربان۔ فمن یھجو رسول اللہ منکم، ،، ویمدحہہ وینصرہ سوائ۔ تم میں سے جو رسول اللہ کی ہجو کرتا ہے جو رسول اللہ کی مدح اور امداد کرتا ہے کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔ وجبرائیل رسول اللہ فینا، وروح القدس لیس لہ کفائ۔ اللہ کے رسول جبرائیل ارروح القدس ہمارے اندر ہیں جن کا کوئی ہمسر نہیں۔ ابن سیرین کی مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ نے کعب بن مالک سے فرمایا لاؤ حضرت کعب نے آپ کو قصہ سنایا، حضور نے فرمایا یہ ان قریش کے لیے تیر لگنے سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ دارقطنی نے حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ کے پاس شعر کے جواز عدم جواز کا ذکر کیا گیا فرمایا یہ بھی ایک کلام ہے اچھا بھی ہوتا ہے برا بھی ہوتا ہے اچھے کو لے لو برے کو چھوڑ دو ۔ حضرت ابی بن کعب راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بعض شعر حکمت ہوتے ہیں۔ (رواہ البخاری۔ ) ۔ شعبی کا بیان ہے کہ ابوبکر بھی شعر کہتے تھے اور عمر بھی شعر کہتے تھے اور علی ؓ بھی شعر کہتے تھے۔ تینوں شعر کہتے تھے۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ عنہمامسجد کے اندر خود بھی شعر پڑھتے اور پڑھواتے بھی تھے۔ ایک بار عمرو بن ربیع کو طلب فرماکر اس سے اس کا قصیدہ سناجس کا پہلا شعر یہ تھا،: امن آل نعم انت غاد فمبکر، ، غداۃ غد ام رائح فمھجر۔ ابن ربیعہ نے آپ کو پوراقصیدہ آخر تک سنا دیا جو تقریبا ستر شعر کا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے دوبارہ لوٹ کر سنا دیا کیوں کہ آپ پورا قصیدہ ایک بار سن کریاد کرلیا کرتے تھے۔ ” وذکرواللہ کثیر، ، ان کی شاعری ان کے لیے اللہ کے ذکر کی کثرت سے مانع نہ ہو اور اپنے بیشتر اشعار میں وہ اللہ کے ذکر اور ترغیب وترہیب کو بیان کرتے ہیں۔ وانتصروا من بعد ماظلموا، مقاتل کا بیان ہے کہ مشرکین کے مقابلے میں ہجو کے ذریعے مدد کروپھرشعراء مشرکین کے بارے میں فرمایا، وسیعلم الذین ظلموا، ، جو انہوں نے شرک کیا، اور ہجو کی، ای منقلب یقلبون، وہ موت کے بعد ہماری طرف ہی لوٹانے والے ہیں ، ابن عباس فرماتے ہیں کہ جہنم اور آتش سوزاں کی طرف لوٹیں گے واللہ اعلم۔
Top