Tafseer-e-Baghwi - Ash-Shu'araa : 82
وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جس سے اَطْمَعُ : میں امید رکھتا ہوں اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ : کہ مجھے بخش دے گا خَطِيْٓئَتِي : میری خطائیں يَوْمَ الدِّيْنِ : بدلہ کے دن
اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا
تفسیر۔ 82۔ والذی ھو اطمع، امید کرتے ہیں ، ان یغفرلی خطیئتی یوم الدین۔ حساب کے دن وہ میری غلطیوں کو درگزر فرمادے گا۔ خطاء سے کیا مراد ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس خطاء سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول، انی سقیم، ہے اور دوسرا ، بل فعلہ ، کبیرھم، اور حضرت سارہ کے متعلق فرمایا، تھا، ھذا اختی، حسن کا قول ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ستاروں کو دیکھ کر فرمایا تھا، ھذاربی ، یہ خطا ہے۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا ابن جرعان زمانہ جاہلیت میں کینہ پروری کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کا اس کو کچھ نفع ملے گا، فرمایا اس کو کچھ فائدہ نہی پہنچے گا، اگر اس نے کسی دن بھی، رب اغفرلی ، خطیتئی یوم الدین نہیں کہا ہوگا، حضرت ابراہیم نے قوم کے سامنے جو کچھ کہاوہ سب بطور احتجاج اور دلیل کے ساتھ تھا کہ جس معبود میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو وہ معبود ہونے کا حق نہیں رکھتا، اور نہ اس کی پوجا کرنا جائز ہے۔
Top