Tafseer-e-Baghwi - Al-Hajj : 7
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِ١ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے الہام کیا اِلٰٓى : طرف۔ کو اُمِّ مُوْسٰٓى : موسیٰ کو اَنْ اَرْضِعِيْهِ : کہ تو دودھ پلاتی رہ اسے فَاِذَا : پھر جب خِفْتِ عَلَيْهِ : تو اس پر ڈرے فَاَلْقِيْهِ : تو ڈالدے اسے فِي الْيَمِّ : دریا میں وَ : اور لَا تَخَافِيْ : نہ ڈر وَلَا تَحْزَنِيْ : اور نہ غم کھا اِنَّا : بیشک ہم رَآدُّوْهُ : اسے لوٹا دیں گے اِلَيْكِ : تیری طرف وَجَاعِلُوْهُ : اور اسے بنادیں گے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں (جمع)
اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ جب تم کو اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا ہم اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اسے پیغمبر بنادیں گے
7۔ واوحینا الی ام موسی، ، یہاں پر وحی سے مراد الہام ہے ۔ نبوت والی وحی نہیں جو وحی انبیاء کرام پر نازل ہوا کرتی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ ہم نے ان کے دل پر ڈال لی، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا نام یوحابذ بنت لاوی بن یعقوب ہے۔ ان ارضعیہ ، ، حضرت موسیٰ کی والدہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتناعرصہ دودھ پلایا۔ دودھ پلانے کی مدت رضاعت میں ائمہ مفسرین کرام کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ آٹھ ماہ اور بعض نے کہا چار ماہ اور بعض نے تین ماہ ۔ موسیٰ کی والدہ موسیٰ کی گود میں لیے دودھ پلاتی رہتی تھیں اور نہ وہ روتے تھے اور یہ حرکت کرتے تھے۔ فاذاخفت علیہ، اور جب اس کی طرف سے جاسوسوں کے مطلع ہونے کا خوف ہوا اندیشہ ہوا کہ کہیں فرعون کے کارندے حضرت موسیٰ کو ذبح ہی نہ کر ڈالیں۔ فالقیہ فی الیم، سے مراد سمندر ہے۔ یہاں اس سے مشہور دریادریائے نیل ہے۔ ولاتخافی ، اور اس کے غرق ہونے سے نہ ڈریں۔ بعض نے کہا کہ اس کے ضائع ہونے سے نہ گھبرائیں۔ ولاتحزنی ، اور اس کی جدائی کی وجہ سے غمگین نہ ہوں۔ ” انارادوہ الیک، وجاعلوہ من المرسلین، عطاء اور ضحاک سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا مصر میں جب بنی اسرائیل کی تعداد زیادہ ہوگئی اور لوگوں پر انہوں نے دراز دستی شروع کردی اللہ کی نافرمانیاں کرنے لگے نہ بھلائی کا کسی کو حکم دیتے اور نہ گناہ سے روکتے تھے آخر اللہ نے ان پر قبطیوں کو مسلط کردیا، قبطیوں نے ان کا زور توڑ دیا اور بہت زیادہ کمزور بنادیا۔ بالاآخر اللہ نے اپنے نبی موسیٰ کے ذریعے قبطیوں کے تسلط سے ان کو رہا کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن میں فرعون ک پاس کیسے پہنچے۔ حضرتابن عباس ؓ عنہماکابیان ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا زمانہ قریب آیا توموسی کی والدہ نے ایک دایہ کو بلایا اور یہ دایہ انہیں دایوں میں سے تھھی جو فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کی حاملہ عورتوں کے لیے مقر ر تھی لیکن موسیٰ کی والدہ کی دوست تھی دردزہ ہوئی تو اس کو بلوایا وہ آگئی اس سے کہا میری جو حالت ہے تجھے معلوم ہے آج تیری دوستی سے فائدہ حاصل کرنا ہے دائی اپنے کام میں لگ گئی ، جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور دائی کے ہاتھوں میں آگئے توموسی کی دونوں آنکھوں کے درمیان سے نکلتا ہوانور دیکھ کردائی حیرت زدہ ہوگئی۔ اس کا ہر جوڑ لرز اٹھا، پورے بدن میں سنسی پیدا ہوگئی اور حضرت موسیٰ کی محبت اس کے دل میں جم گئی۔ موسیٰ کی والدہ سے کہنے لگی تونے جب بلوایا تھا اور تیرے پاس آئی تھی اس وقت میرے پیچھے تیرے بیٹے کو قتل کرنے والے تھے۔ (میرا ارادہ تھا کہ تیرے بیٹے کو قتل کرنے والوں کے حوالے کردوں گی۔ ) لیکن اب میرے دل میں تیرے بیٹے کی محبت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ ایسی محبت میں نے کسی کی نہیں اس لیے میں کہتی ہون کہ اپنے بیٹے کی حفاظت رکھنا، پھر دائی کو موسیٰ کی ماں کے گھر سے نکلتے کسی جاسوس نے دیکھ لیا، فورا سب دروازے پر آگئے اور اندر گھسناچا ہے، حضرت موسیٰ کی بہن دوڑی ہوئی آئی اور کہنے لی امان دروازہ پر سپاہی آگئے فورا موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بہن نے تنور میں ڈال دیا، تنور میں آگ روشن تھی لیکن ان کے اوسان خطا ہوگئے اس کو پتہ بھی نہ چلا کہ میں کیا کررہی ہوں سپاہی اندر آگئے تنور بھڑ ک رہا تھا اور حضرت موسیٰ کی والدہ کے چہرے پر کوئی تغیر نہیں تھا، نہ چہرے کے رنگ میں فرق تھا نہ دودھ اترا تھا کہنے لگی دائی یہاں کیوں آئی تھی ؟ حضرت موسیٰ کی والدہ نے کہا کہ وہ میری دوست ہے ملاقات کے لیے آئی تھی غرض وہ لوگ واپس چلے گئے۔ اب حضرت موسیٰ کی والدہ کو یاد آیا اور موسیٰ کی بہن سے پوچھا بچہ کہاں ہے ؟ موسیٰ کی بہن نے کہا مجھے معلوم نہیں اتنے میں تنور سے بچہ کے رونی کی آواز آئی ماں نے جاکر دیکھا کہ تنور کی آگ موسیٰ (علیہ السلام) پر ٹھنڈی ہوچکی ہے اور ٹھنڈی بھی اتنی جو باعث سلامتی ہے۔ ماں نے حضرت موسیٰ کو اٹھایا پھر مدت کے بعد موسیٰ کی والدہ نے دیکھا کہ فرعون کو لڑکوں کی بےحد تلاش ہے ان کو اپنے بچہ کا خطرہ محسوس ہوا تو اللہ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ایک صندوق لے کرموسی کو اس میں رکھ کردریا میں ڈال دے۔ اس خیال کے آتے ہی ایک بڑھی کے پاس آئیں اور اس سے صندوق خریدا۔ بعض کا خیال ہے کہ ایک صدوقچہ لیا جس کے اندر تارکول کی پالش کردی اور خالی جگہیں تارکول سے پر کردیں، اور اس کے اندر بچھونا بچھادیا اور موسیٰ کو اندر رکھ کر صندوقچہ بند کرکے رات کو دریا میں ڈال دیا۔ چنانچہ دوسرا دن دوشنبہ کا تھا ، فرعون نے نیل کے کنارے اپنے بیٹھنے کی جگہ تیار کروائی ہوئی تھی اور اس دن جاکر بیٹھ گیا، اس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم بھی تھی فرعون کی ایک لڑکی تھی جس کو برص لاحق تھا وہ بھی ساتھ تھی اچانک نیل میں بہتا ہوا سامنے سے ایک صندوق نظر آیا لہریں طمانچے مار مار کر اس کو لارہی تھیں ، فرعون نے کہا نیل مین یہ چیز درخت سے آگئی ہے اس کو لاؤ، ہر طرف سے کشتیوں نے جاکر اس کو گھیر لیا، اور لاکرفرعون کے ساتھ رکھ دیا، لوگوں نے ہرچند اس کو کھولنے کی تدبیر کی نہ کھلا، آخرآسیہ قریب آئی اور اس نے صندوق کے اندر ایک دیکھاجو کسی نے نہیں دیکھا کوشش کرکے اس نے صندوق کو کھول دیا اندر ایک چھوٹا سابچہ بچھونے پر لیٹا ہوا تھا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور تھا، اور اللہ نے اس کا رزق دونوں انگھوٹوں میں پیدا کردیا، جن کے اندر سے دودھ چوس رہا تھا، اللہ نے بچہ کی محبت آسیہ کے دل میں ڈال دی فرعون بھی اس سے محبت کرنے لگے اور دل سے مہربان ہوگیا۔ فرعون کی لڑکی بھی آگئی اور اس نے بچہ کے منہ کالعاب لے کر اپنے داغوں پر ملافورا اچھی ہوگیئ۔ لڑکی نے بچہ کو چوم لیا اور سینہ سے چمٹالیا۔ جادگروں نے کہا اے بادشاہ ہمارا خیال ہے کہ یہ وہی بچہ ہے جس سے تجھے خطرہ ہے۔ یہ بنی اسرائیل کا بچہ ہے تیرے خوف سے اس کو دریا میں ڈال دیا، فرعون نے بچہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا توآسیہ نے کہا، قرۃ عین لی ولک لاتقتلوہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا، ، یہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ا سکوقتل نہ کرو۔ امید ہے کہ یہ میرے کام آئے گا، یا ہم اس کو بیٹا بنالیں گے۔ آسیہ کی کوئی اولاد نہیں تھی ، فرعون نے آسیہ سے کہا کہ موسیٰ کو مجھے دے دو فرعون نے آسی کو موسیٰ (علیہ السلام) ہبہ کردیا اور کہنے لگا کہ مجھے اپنے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا اگر اس روز فرعون کہہ دیتا یہ جیسے تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ویسے ہی میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تو اللہ تعالیٰ جس طرح آسیہ کو ہدایت یاب کردیا اسی طرح فرعون کو بھی ہدایت یاب کردیتا آسیہ سے کہا گیا کہ اس کا کچھ نام رکھو، آسیہ نے اس کا نام موسیٰ رکھ دیا کیونکہ ہم نے اس کو پانی اور درختوں ک ے درمیان پایا تھا۔
Top