Tafseer-e-Baghwi - Al-Qasas : 81
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ١۫ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ
فَخَسَفْنَا : پھر ہم نے دھنسا دیا بِهٖ : اس کو وَبِدَارِهِ : اور اس کے گھر کو الْاَرْضَ : زمین فَمَا كَانَ : سو نہ ہوئی لَهٗ : اس کے لیے مِنْ فِئَةٍ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : مدد کرتی اس کو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے وَمَا كَانَ : اور نہ ہوا وہ مِنَ : سے الْمُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی اور نہ وہ بدلا لے سکا
قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سب سے بڑاقاری تھا اس کی سرکشی نے اس کو تباہ کردیا۔ 81۔ فخسفنا بہ وبدارہ الارض، ،، اہل علم نے یہ واقعہ بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے بعد قارون سب سے بڑاعالم اور توریت کا سب سے بڑا قاری تھا، سب سے زیادہ حسین آواز اور مالدار تھا، لیکن اس نے سرکشی کی اور حد خداوندی سے آگے بڑھ گیا، سرکشی اور نافرمانی کی ابتداء اس واقعہ سے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو حکم دے دو کہ ہر شخص اپنی چادر کے چاروں کونوں پر ایک ایک نیلا آسمانی رنگ کا دھاگہ باندھ لیں تاکہ دھاگہ کو دیکھ کر آسمانی رنگ ان کی نظروں کے سامنے آجائے اور آسمانی رنگ کو دیکھ کر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائیں اور ان کو یاد ہوجائے کہ اس آسمان سے اللہ نے اپناکلام اتارا ہے۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب کیا تیراحکم اس طرح پورا نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی پوری چادیں نیلے رنگ کی کرلیں، کیونکہ بنی اسرائیل ان دھاگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے۔ فرمایا موسیٰ میرا چھوٹا حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا اگر وہ میرا چھوٹا حکم بھی نہیں مانیں گے تو بڑا حکم بدرجہ اولی نہیں مانیں گے۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو جمع کیا اور فرمایا کہ اللہ کا حکم ہے کہ تم اپنی چادروں پر آسمانی رنگ کے دھاگے باندھ لیاکرو، تاکہ ان کو دیکھ کر تم کو اپنے رب کی یاد ہوجائے۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کے حکم کی تابعداری کی اور قارون نے حکم نہیں مانا، اور غرور سے کہنے لگا کہ ایساعمل توآقا اپنے غلاموں کے ساتھ کرتے ہیں تاکہ اس کے غلام دوسرے غلاموں سے الگ معلوم ہوجائیں۔ قارون کی نافرمانی اور سرکشی کا یہاں سے آغاز تھا۔ پھر جب حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو لے کر دریا کے پار پہنچ ئگے تو بنی اسرائیل کی ساری قربانیوں کی نگرانی حضرت ہارون کے سپر د کردی اور ان کو قربانی کا افسر بنادیا۔ بنی اسرائیل باری باری اپنی قربانیاں حضرت ہارون کے پاس لاتے تھے اور حضرت ہارون ان قربانیوں کو قربانی کی جگہ پر رکھ دیتے تھے۔ پھر آسمان سے ایک آگ آکرکھاجاتی تھی۔ قارون کو حضرت ہارون کی اس سرداری سے بہت رنج ہوا اور حضرت موسیٰ کے پاس آکرکہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے لیے تو رسالت ہوگئی اور ہارون کے لیے قربانی کی ذمہ داری اور میں توریت کا سب سے بڑا قاری ہوں مجھے کچھ نہیں ملا میں اس بات پر صبر نہیں کرسکتا۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ میں نے ہارون کو از خود یہ عہدہ نہیں دیا بلکہ اللہ نے ان کو یہ عہدہ دیا ہے۔ قارون نے کہا کہ میں تو تمہاری بات ا س وقت تک سچ نہیں مانوں گا جب تک تم اس کا ثبوت مجھے نہ دکھاؤ، حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ ہر شخص اپنی اپنی لاٹھی لے کر آئے اور اس خیمہ کے اندر لاکر درخت کی طرح گاڑ دے ۔ حسب الحکم سب لوگوں نے اپنی اپنی لاٹھیاں مقررہ خیمہ کے اندر لاکرکھڑی کردیں رات یوں ہی گزرگئی صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ہارون کی لاٹھی ایک سرسبز درخت کی صورت اختیار کرگئی۔ اور اس میں ہرے بھرے پتے نکل آئے۔ قارون کہنے لگا کہ موسیٰ جادو تم بناتے رہے ہو، اس سے زیادہ تعجب آفرین جادو نہیں ہے۔ اس کے بعدقارون حضرت موسیٰ سے الگ ہوگیا، حضرت موسیٰ قرابت کی وجہ سے اس سے نرمی کا سلوک کرتے رہے مگر وہ ہر وقت آپ کو دکھ ہی دیتا رہا، اس کی سرکشی ، دشمنی، اور نافرمانی بڑھتی گئی اس نے حضر ت موسیٰ سے الگ ہوکر ایک مکان تعمیر کیا، جس کا دروازہ سونے کا بنوایا، اور دیواروں پر سونے کی پتریں لگوائیں، بنی اسرائیل کے بڑے بڑے آدمی روزانہ صبح شام اس کے پاس آتے اور باتیں کرتے ہنسی مذاق کرتے اور قارون سب کو کھانا کھلاتا۔ قارون کی تباہی کا آغاز زکوۃ نہ دینے کا عزم کیا۔ حضرتابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا کہ جب حضر ت موسیٰ کو زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ حکم بنی اسرائیل کوسنایاتوقارون نے ماننے سے انکار کردیا۔ آخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک فی ہزار کی شرط پر قارون سے مصالحت کرلی۔ قارون نے وعدہ کردیا کہ ہزار دینار میں ایک دینار ہزار درہم میں ایک درہم اور ہزار بکریوں میں ایک بکری زکوۃ میں ادا کرے گا، جب قارون اس اقرار کے بعد اپنے گھر پہنچا اور حساب لگایا تو بڑی رقم ہوگئی اور اس کے دل نے اتنی کثیر رقم دینے کی اجازت نہیں دی۔ آخر اس نے سوچ بچار کے بعد بنی اسرائیل کو جمع کیا اور سب سے خطاب کرکے کہا لوگو موسیٰ (علیہ السلام) نے جو حکم بھی تم کو دیا تم نے اس کی تعمیل کی ، اب وہ تمہارے مال بھی لے لیناچاہتا ہے۔ بنی اسرائیل نے کہا کہ آپ ہمارے بڑے ہیں جو آپ کی منشاء ہو۔ حکم دیجئے قارون نے کہا کہ میں حکم دیتا ہون کہ تم فلاں زانیہ عورت کو لے آؤ، ہم کچھ معاوضہ دے کر اس سے طے کرلیں کہ وہ موسیٰ کو اپنے ساتھ زنا کرنے کی تہمت لگائے۔ اگر اس نے ایسا کرلیاتوبنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کو چھوڑ دیں گے اور اس کے حلقے سے باہر نکل آئیں گے چناچہ لوگوں نے اس عورت کو بلوایا، قارون نے ایک ہزار درہم معاوضہ دینامنظور کرلیا، بعض روایت میں ہزار دینار اوربعض روایات میں سونے کا ایک طشت دیناطے کیا۔ بعض اہل روایات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ قارون نے اس سے کہا ہے تجھے مال دار بنادوں گا، تجھے اپنی بیویوں میں شامل کرلوں گا، بشرطیکہ کل صبح بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جمع ہوں توموسی کو اپنے ساتھ زنا کرنے پر متہم کرنا جب دوسرا دن ہواتوقارون نے بنی اسرائیل کو جمع کیا، پھر موسیٰ کے پاس گیا اور کہابنی اسرائیل آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کررہے ہیں، آپ باہر آکر ان کو وعظ و نصیحت کریں۔ حضرت موسیٰ باہر آئے بنی اسرائیل اس وقت کھلے میدان میں جمع تھے۔ آپ تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ اے بنی اسرائیل (سنو ! ) جو چوری کرے گا، ہم اسکا ہاتھ کاٹ دیں گے جو کسی پر زنا کی تہمت لگائے گا ہم اس کو کوڑے ماریں گے اور جو زنا کرے گا ہم اس کو بھی کوڑے ماریں گے بشرطیکہ اس کی بیوی نہ ہو اور اگر بیوی کے ہوتے ہوئے زنا کرے گا توہم پتھرمار مار کر اس کو ہلاک کردیں گے قارون بولاخواہ تم بھی ایسے ہو (نعوذ بااللہ) تب بھی اپنے کو یہی سزا دو گے) حضرت موسیٰ نے فرمایا خواہ میں ہی ہوں، قارون کہنے لگا کہ بنی اسرائیل کا خیال ہے تم نے فلاں عورت سے زنا کیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا اس کو بلواؤ اگر وہ یہ بات کہہ دے کہ تو اس کی بات صحیح مانی جائے گی، عورت آئی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس عورت سے کہا کہ اے عورت کیا میں نے تیرے ساتھ ایسا کیا ہے، یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟ حضرت موسیٰ نے اس الزام کا بڑا تاثر لیا اور اس کو خدا کا واسطہ دیا، جس نے بنی اسرائیل کے لیے دریا کو پھاڑ دیا اور توریت نازل فرمائی اور فرمایا کہ کیا توسش نہیں کہے گی، اللہ تعالیٰ نے اس عورت کا خیال پلٹ دیا اور اس نے اپنے دل میں خیال کیا آج توبہ کرلینا اور اللہ کے رسول کو دکھ دینے سے بہتر ہے۔ کہنے لگی نہیں یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں کہ بلکہ قارون نے مجھے معاوضہ دیناطے کیا تھا کہ اگر میں آپ پر زنا کی تہمت لگادوں، حضرت موسیٰ یہ سنتے ہی سجدہ میں گرگئے اور ورکرکہنے لگے اے اللہ اگر میں تیرارسول ہوں تو میری وجہ سے اس غضب نازل فرما اللہ نے وحی بھیجی کہ زمین کو تمہارے زیر حکم کردیا گیا تم جو حکم چاہو اس کودو۔ یہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے گی، حضرت موسیٰ نے فرمایا : موسی (علیہ السلام) کی بددعا سے قارون کا زمین میں دھنس جانا۔ اے بنی اسرائیل : اللہ نے جس طرح مجھے فرعون کے پاس بھیجا تھا، اسی طرح قارون کی طرف بھی بھیجا تھا، اب جو اس کے ساتھ رہنا چاہے وہ اس کے پاس ٹھہرا رہے اور جو میراساتھ دیناچا ہے وہ اس کے پاس سے الگ ہوجائے۔ یہ سنتے ہی سب لوگوں نے قارون کا ساتھ چھوڑ دیا، سب اس کے پاس سے ہٹ گئے صرف دوآدمی اس کے پاس رہ گئے۔ پھر حضرت موسیٰ نے زمین کو حکم دیا اے زمین، ان کو لے لے زمین نے ان کے قدم کھینچ لیے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ وہ اپنے تخت اور فرش پر اس طرح موجود تھا، زمین نے اس کے تخت کو نگل لیا، پھر آپ نے زمین کو حکم دیا کہ لے لے ، زمین نے گھٹنوں تک اس کو نگل لیا، پھر آپ نے فرمایا ان کو لے، زمین نے ا نکوکمر تک نگل لیا۔ پھر آپ نے فرمایا زمین ان کو لے، زمین ان کو گلے تک نگل گئی، قارون اور اس کے ساتھی برابر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے منت وزاری کرتے رہے اور قارون برابر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا اور قرابت کا واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ ستر بار اس سے واسطہ دیا لیکن شدت غضب کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی طرف کوئی التفات نہیں کیا، اور زمین کو حکم دیا کہ ان کو لے غرض زمین نے سب کو نگل لیا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی، اور فرمایا تمہارا دل بھی کیساسخت ہے۔ قارون نے ستر بار تم سے فریاد کی مگر تم نے ایک بار بھی اس کی فریاد رسی نہیں کی قسم ہے اپنی عزت و عظمت کی اگر وہ مجھ سے ایک بار بھی فریاد کرتاتو میں اس کی فریاد رسی ضرور کرتا، بعض روایات میں آیا ہے کہ اللہ نے فرمایا ، آئندہ زمین میں کسی کے حکم کاتابع نہیں بناؤں گا۔ قتادہ کا بیان ہے کہ زمین نے قارون کو اپنے اندر دھنسا لیا اور وہ ہر روز بقد آدم زمین کے اندر دھنس رہا ہے اور یونہی دھنستا رہے گا مگر قیامت تک انتہائی گہرائی کونہ پہنچ سکے۔ قارون کے زمین میں دھنس جانے کے بعد بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے قارون نے بددعا کی صرف اس لیے کہ خود اس جگہ اور اس کا مکان اور خزانہ اور سارا مال ومتاع لے لیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اللہ نے اس کے ساتھ اس کے گھر خزانوں اور مال ومتاع کو بھی زمین میں دھنسا دیاجائے۔ یہی مطلب ہے کہ اس آیت ، فخسفنا بہ وبدارہ الارض فماکان لہ من فئۃ ینصرونہ من دون اللہ، کا، یعنی جو اللہ سے قارون کے عذاب سے روکے۔ وماکانوا من المنتصرین، جو اس پر عذاب نازل ہوا اس کو زمین میں دھنسنے سے روک دیتے۔
Top