Tafseer-e-Baghwi - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے خدا ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
60۔ وکاین من دابۃ لاتحمل رزقھا، یہ اس وجہ سے نبی کریم نے مومنین کے لیے فرمایا جو مکہ میں رہتے تھے ، ان کو مشرکین اذیتیں دیتے تھے، کہ وہاں سے ہجرت کرکے مدینہ آجاؤ وہ مومنین کہتے کہ ہم کس طرح مدینہ کی طرف نکلیں نہ وہاں جو ہمیں کھانا کھلائے اور پلائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، وکاین من دابہ، اپنی حاجت کے لیے صبح نکلتے ہیں۔ لاتحمل رزقھا، نہ تو وہ اپنے ساتھ رزق اٹھاتے ہیں اور نہ ہی وہ ذخیرہ کرتے ہیں دوسرے دن کے لیے جیسے چوپائے اور پرندے ہیں۔ ” اللہ یرزقھا وایاکم، جہاں کہیں بھی وہ ہوتے ہیں وھوالسمیع العلیم، وہ ان کی باتوں کو سننے والے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں پاتے کہ مدینہ میں ہم پر کون خرچ کرنے والا ہے۔ العلیم، وہ جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے سفیان بن علی بن ارقم نے کہاسوائے انسان اور چوہے اور چیونٹی کے اور کوئی مخلوق روز جمع کرکے نہیں رکھتی۔ لاتحمل رزقھا کی تفسیر۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا میں رسول اللہ کے ساتھ انصار کے باغات میں سے ایک باغ میں گیا تھا، رسول اللہ اپنے ہاتھ سے کھجوریں چن چن کر کھانے لگے اور فرمایا ابن عمر، تم بھی کھاؤ، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ، مجھے خواہش نہیں ہے فرمایا مجھے تو کھانے کی خواہش ہے یہ چوتھی رات کی صبح ہے چار دن ہوگئے کہ میں نے کھانا نہیں کھایانہ مجھے ملا۔ میں نے کہا، انا اللہ اللہ المستعان، فرمایا، ابن عمر، اگر میں اپنے رب سے مانگتا ہوں تو وہ مجھے کسری اور قیصر کے ملک سے بھی کتنے ہی زیادہ عنایت کردیتا، لیکن میں ایک دن بھوکارہتا ہوں اور ایک دن پیٹ بھرتا ہوں اور ایک دن نہیں کھاتا، ابن عمر، اگر یہ تمہاری عمر ہوئی تو اس وقت تمہاری حالت کیا ہگی، جب تم ایسے لوگوں میں رہو گے جو سال بھر کا رزق چھپاکر رکھیں گے، اور ان کا یقین کمزور ہوگا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، وکاین من دابۃ لاتحمل رزقھا۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ دوسرے دن کے لیے کچھ جمع کرکے نہیں رکھتے تھے اور ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا، اگر تم اللہ پر توکل رکھو جیسا کہ توکل رکھنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایسے رزق عطا فرمائیں گے جیسے پرندوں کو رزق دیتے ہیں کہ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو لوٹتے ہیں پیٹ بھرے ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کوئی چیز تم کو جنت سے قریب کرنے والی اور دوزخ سے دور رکھنے والی ایسی نہیں رہی کہ میں نے اس کو کرنے کا تم کو حکم نہ دے دیا ہو اور کوئی چیز دوزخ سے قریب کرنے والی اور دوزخ سے دور رکھنے والی ایسی نہیں رہی کہ اس کو کرنے کی تم کو ممانعت نہ کردی ہو۔ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی ہے کہ کوئی شخص بھی جب تک اپنارزق پورا نہ کرلے گا ہرگز نہیں مرے گا، پس تم لوگ متنبہ ہوجاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اوررزق کی طلب میں اچھائی اختیار کرو۔ رزق ملنے میں دیرہوجانے سے تم کو گناہوں کے راستہ سے تحصیل رزق پر آمادہ نہ ہوجانا چاہیے کیونکہ اللہ ک پاس جو چیز ہے اس کو بغیران کی اطاعت کے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
Top