بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الم
(تفسیر) 1۔: (آیت)” الم (حروف مقطعات میں سے ہے) شان نزول : 2۔ (اللہ) کلبی اور ربیع ان انس نے بیان کیا کہ ان آیات کا نزول نجران کے نمائندوں کے متعلق ہوا جن کی تعداد ساٹھ تک تھی یہ سوار ہو کر آپ ﷺ کے پاس آئے یہ کل چودہ افراد تھے اور ان چودہ افراد میں تین اشراف تھے ، ان میں عاقب سب کا لیڈر اور مشیر تھا ، اس سے لوگ مشورہ طلب کرتے تھے اور اس کی رائے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے ، عاقب کا نام عبدال مسیح تھا اور امیر سفر سید تھا جس کا نام ایہم تھا اور ابو حارثہ بن علقمہ پادری اور قافلہ کے مذہبی عالم تھے ، رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہوچکے تھے اس وقت یہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے ، ان کے اوپر یمنی منقش کپڑے کے جغے پہنے ہوئے تھے اور خوبصورت مردانہ چادریں اوڑھے ایسے بھلے معلوم ہوتے تھے کہ دیکھنے والے کہہ رہے تھے کہ ان جیسے لوگوں کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا وہاں حارث بن کعب ؓ بھی تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے ان جیسا کوئی وفد نہیں دیکھا نماز کا وقت بھی ہوگیا تھا ، آپ ﷺ نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی ، انہوں نے مشرق کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ، آپ ﷺ نے سید اور عاقب سے گفتگو کی ، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اسلام لانے کی دعوت دی ، دونوں نے جواب دیا کہ ہم دونوں تو آپ ﷺ سے پہلے اسلام لا چکے ہیں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم دونوں جھوٹ بولتے ہو ، تم کو اسلام سے روک دینے والی چیز یہ ہے کہ تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہو ، صلیب کی پوجا کرتے ہو اور خنزیر کو کھاتے ہو، کہنے لگے اچھا بتاؤ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ خدا نہیں تو ان کا باپ اور کون ہے ؟ یہ سب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق جھگڑنے لگے آپ ﷺ نے ان سب کو ارشاد فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا رب زندہ ہے اس کو کبھی موت نہیں آئے گی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر موت بھی آئے گی ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ، پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا رب ہر چیز پر قائم ہے وہ حفاظت بھی کرتا ہے اور رزق بھی عطا کرتا ہے ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا ان چیزوں کا مالک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوسکتے ہیں ، وہ کہنے لگے نہیں ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ اللہ کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو سوائے اپنے مخصوص علم کے اس سے زیادہ کچھ جانتے ہیں ؟ اہل وفد نے کہا کہ نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہہ ہمارے رب نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت رحم میں بنائی جس طرح اس نے چاہا اور ہمارا رب نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ، پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ حضرت مریم (علیہا السلام) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے پیٹ میں اسی طرح رکھا جس طرح عورت اپنے بچے کو پیٹ میں رکھتی ہے پھر اس کو جنا جس طرح عورت اپنے بچے کو جنتی ہے ، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو غذا دی گئی جیسا کہ بچے کو غذا دی جاتی ہے پھر وہ کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں اور باتیں بھی کرتے ہیں وہ کہنے لگے کیوں نہیں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر جس طرح تم گمان کرتے ہو اس طرح کیسے ہوسکتا ہے ؟ وہ سب خاموش ہوگئے ، اس پر اللہ رب العزت نے اس صورت کی ابتدائی آیات اسی (80) سے کچھ اوپر آیات نازل ہوئیں ۔ ” الم اللہ “ بعض نے کہا کہ میم مفتوح کے ساتھ اور لفظ اللہ اس کے ساتھ ذکر ہے اور بعض حضرات نے میم مفتوح پڑھا ہے التقاء ساکنین کی وجہ سے اور اخف حرکات میں فتحہ دیا اور ابو یوسف بن خلیفہ نے ابی بکر سے روایت کی ہے ” الم، اللہ “ اور بعض حضرات نے یہاں لفظ اللہ میں ہمزہ کو ساقط کردیا اور میم کے فتحہ کو لفظ اللہ کے لام کے ساتھ ملا دیا اور بعض نے لفظ میم کو ساکن پڑھا ہے وقف کرکے پھر ابتداء میں ہمزہ کو حذف کردیا ان لوگوں کے نزدیک جو اس کو حذف کردیتے ہیں ۔ (لا الہ الا ھو الحی القیوم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندہ رہنے والا قائم رہنے والا ہے) لفظ اللہ مبتداء ہے اور اس کے مابعد خبر ہے اور ” الحی القیوم “ اس کی صفت ہے ۔
Top