Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
مومنو ! خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا
102۔ (آیت)” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ “۔ (شان نزول) مقاتل بن حبان ؓ کی روایت ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں اوس اور خزرج کے درمیان لڑائی تھی ، جب آپ ﷺ مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے اور وہاں پہنچے تو ان دونوں فریقوں میں صلح کروا دی ، پھر اس کے بعد دو آدمیوں میں ایک دوسرے نے فخر کیا ، ان میں سے ایک ثعلبہ بن غنم اوس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ، اور اسعد بن زرارہ خزرج قبیلہ سے تعلق رکھتے اوسی نے کہا یہ ہم ہی میں سے تھا وہ خزیمہ بن ثابت ؓ جس کی تنہا شہادت کو دو گواہوں کے برابر مانا گیا تھا حنظلہ ؓ ” غسیل الملائکۃ “ اور عاصم بن ثابت بن افلح اور سعد بن معاذ ؓ جن کی وجہ سے رحمن کا عرش ہل گیا تھا (یہ سب ہم میں سے تھے) اور بنوقریظہ کے متعلق اس کے فیصلہ کو اللہ نے پسند کیا تھا ، خزرجی نے کہا ہم میں چار آدمی ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو محکم کرلیا ہے ان میں ابی بن کعب ؓ ، معاذ بن جبل ؓ ، زید بن ثابت ؓ ، ابو زید ؓ ، اور ان میں سعد بن عبادہ ؓ ، جو انصار کے سردار تھے ، اس طرح گفتگو جاری رہی اور دونوں غصے میں آگئے ، دونوں فخریہ اشعار پڑھنے لگے اوس اور خزرج اسلحہ لے کر آگئے آپ ﷺ ان کے پاس آئے ، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے ، اس کی نافرمانی نہ کی جائے ، مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حق ادا کرو اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں نہ روکے اور اللہ کے انصاف کو قائم کرو اگر تمہیں اپنا نقصان یا اپنے والدین میں سے کسی کا نقصان ہو رہا ہو یا اولاد کا ، حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ بندہ اس وقت تک تقوی کے حق تک نہیں پہنچ سکتا ، جب تک اپنی زبان کو کنٹرول میں نہ کرے ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پر شاق گزرا کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! ﷺ اس حکم کی پوری تعمیل کرنے کی کس میں جرات ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” فاتقوا اللہ مااستطعتم “ یہ آیت منسوخ ہے اور مقاتل فرماتے ہیں کہ آل عمران میں اس آیت کے سوا اور کوئی آیت منسوخ نہیں (آیت)” ولاتموتن الا وانتم مسلمون “۔ بمعنی مؤمنین کے ہے، بعض نے کہا کہ اس سے وہ مخلصین مراد ہیں جنہوں نے اپنے امور کو اللہ کے سپرد کیا ہے، فضیل فرماتے ہیں کہ مسلمون محسنون کے معنی میں ہے جو اللہ پر حسن ظن رکھنے والے ہیں ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے لوگو ! اللہ سے ڈرتے رہو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اگر زقوم کا ایک قطرہ زمین پر ٹپکا دیا جاتا تو زمین والوں کے لیے زندگی تنگ ہوجاتی ، پس اس شخص کا کیا حال ہوگا جس کا کھانا سوائے زقوم کے اور کچھ نہیں ہوگا ۔
Top