Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 103
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاعْتَصِمُوْا : اور مضبوطی سے پکڑ لو بِحَبْلِ : رسی کو اللّٰهِ : اللہ جَمِيْعًا : سب مل کر وَّلَا : اور نہ تَفَرَّقُوْا : آپس میں پھوٹ ڈالو وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِذْ كُنْتُمْ : جب تم تھے اَعْدَآءً : دشمن (جمع) فَاَلَّفَ : تو الفت ڈال دی بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں میں فَاَصْبَحْتُمْ : تو تم ہوگئے بِنِعۡمَتِهٖۤ : اس کی نعمت سے اِخْوَانًا : بھائی بھائی وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ حُفْرَةٍ : گڑھا مِّنَ : سے (کے) النَّارِ : آگ فَاَنْقَذَكُمْ : تو تمہیں بچا لیا مِّنْھَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِھٖ : اپنی آیات لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَھْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ
(تفسیر) 103۔: (آیت)” واعتصموا بحبل اللہ جمیعا “۔ حبل اس سبب کو کہتے ہیں جو مطلوب و مقصود تک پہنچانے میں ذریعہ بنے اور ایمان کو بھی حبل کہتے کیونکہ یہ سبب جو جہنم کے خوف سے بچاتا ہے۔ (واعتصموا بحبل اللہ کی تفسیر) اس کے معنی میں مفسرین کا اختلاف ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے فرماتے ہیں کہ اس کا معنی ہے اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑنا ، ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد جماعت ہے اور فرماتے ہیں کہ تم جماعت کو لازم پکڑو اس لیے کہ یہ ایسی رسی ہے جس کے پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور جماعت میں جو تمہیں طاعت ناپسند سمجھتے ہو وہ بہتر ہے ، اس فرقت سے جو تم پسند کرتے ہو ، مجاہد (رح) اور عطاء (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد عہد اللہ ہے، قتادہ (رح) ، اور سدی (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن کریم ہے ، ابن مسعود نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کریم اللہ کی مضبوط رسی ہے (اس کو پکڑے رکھو اور وہ واضح نور ہے اور شفاء نافع ہے اور اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے جو اس کو پکڑے اور نجات ہے جو اس کی پیروی کرے ۔ مقاتل بن حبان ؓ کا قول ہے کہ (آیت)” بحبل اللہ “ ۔ سے مراد اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کی اطاعت ہے (آیت)” ولا تفرقوا “ اور تم تفرقہ اختیار نہ کرو جیسا کہ یہود و نصاری نے کہا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں پر راضی ہوتا ہے ، وہ تین باتیں یہ ہیں کہ تم اللہ کی عبادت کرو ، اس کا کسی کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور اللہ جس کو تمہارا حاکم بنا دے اس کی خیرخواہی کرو ، یہ باتیں اللہ کو پسند ہیں اور تین باتوں سے وہ نارض ہوتا ہے ، فضول باتوں کی بحث سے مال کو برباد کرنے سے اور کثرت سے سوال کرنے سے ، (آیت)” واذکرو نعمۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فالف بین قلوبکم “۔ (انصار کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کا احسان) محمد بن اسحاق بن یسار (رح) اہل اخبار سے منقول ہے کہ اوس اور خزرج دونوں بھائی تھے ، ان دونوں کے درمیان دشمنی ہوگئی وجہ دشمنی ایک قتیل کی وجہ سے ہوئی ، اس میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ ایک سو بیس سال تک باہم جنگ ہوتی رہی لیکن اسلام نے ان کے اندر دشمنی والی آگ بجھا دی اور آپ ﷺ کی شفقت کی بدولت ان میں اتفاق ہوگیا ، ان کے درمیان محبت کا سبب یہ ہوا کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں ایک شخص تھا جس کا نام سوید بن صامت تھا ، قوم والے اس کو طاقت ور اور اصیل ہونے کی وجہ سے کام کہتے تھے یہ حج یا عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ گیا اس وقت رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوچکی تھی ، اور آپ کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم مل چکا تھا ، آپ ﷺ نے سوید کی آمد کی خبر سنی اور اس کے پیچھے گئے، اس کو اسلام اور اللہ عزوجل کی دعوت دی ، سوید نے کہا شاید تمہارے پاس ویسی ہی کوئی چیز ہے جیسی میرے پاس ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمـ نے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے ؟ سوید نے کہا کہ لقمان کا رسالہ یعنی حکمت ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو میرے سامنے پیش کرو ، سوید نے اس کو پیش کیا ، آپ نے فرمایا ، یہ اچھا ہے مگر میرے پاس جو چیز ہے وہ اس سے افضل ہے ، میرے پاس قرآن کریم ہے جس کو اللہ رب العزت نے نور و ہدایت بنا کر اتارا ہے پھر آپ ﷺ نے اس کو قرآن کریم۔ سنایا اور اسلام کی دعوت دی ، سوید نے نفرت نہیں کی اور کہنے لگا یہ اچھی چیز ہے پھر واپس مدینہ چلا گیا اور کچھ ہی مدت کے بعد جنگ بعاث میں قبیلہ خزرج نے اس کو قتل کردیا ، اس کی قوم والوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ہونے کی حالت میں اس کو قتل کیا گیا ، پھر اس کے بعد ابو الجیسر ، انس بن رافع اور ان کے ساتھ بنی اشھل کا گروہ جس میں ایاس بن معاذ بھی شامل تھا ، قریش سے معاہدہ تعاون کرنے کے لیے آیا ، جب آپ ﷺ کو یہ بات سنائی گئی تو آپ تشریف لے گئے اور ان کے پاس بیٹھ کر فرمایا جس کام کے لیے تم آئے کیا اس سے بہترچیز کی تم کو خواہش ہے لوگوں نے کہا وہ کیا چیز ہے ، ؟ فرمایا میں اللہ کا پیغمبر ہوں ، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ کسی چیز کو اللہ کا ساجی قرار نہ دو ، اللہ نے مجھ پر کتاب بھی نازل کی ہے ، اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کے سامنے اسلام کا تذکرہ کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا ، ایاس بن معاذ نوجوان لڑکا تھا ، کہنے لگا قوم والو جس کام کے لیے تم آئے ہو خدا کی قسم یہ اس سے بہتر ہے ، ابو الجیسر نے ایک لپ بھر کر کنکریاں ایاس کے چہرے پر ماریں اور بولا یہ اپنی بات رہنے دے کہ ہم دوسری غرض سے آئے ہیں ، ایاس خاموش ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے اور وہ لوگ بھی مدینہ کو لوٹ گئے، مدینہ پہنچنے کے بعد اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث ہوئی اور کچھ عرصہ کے بعد ایاس کا انتقال ہوگیا ، پھر جب اللہ نے چاہا کہ اس کا دین ظاہر اور رسول غالب ہوجائے تو آپ ﷺ حج کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین (انصاری صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کی جماعت سے ملے اور اپنے آپ کو قبائل عرب کے حوالے کردیا ، جیسا کہ ہر سال موسم حج میں ہوتا ہے ، عقبہ گھاٹی کے پاس ایک خزرجی گروہ سے ملاقات ہوئی ، اس جماعت میں چھے شخص تھے ، اسعد بن زرارہ ، عوف بن حارث ابن عفراء ہیں ، رافع بن مالک عجلانی ، قطبہ بن عامر بن خریدہ ، عقبہ بن عامر بن بانی ، جابر بن عبداللہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا تم کون ہو ، وہ کہنے لگے ہم خزرجی ہیں ، فرمایا کیا تم یہودیوں کے ساتھیوں میں سے ہو ، وہ کہنے لگے جی ہاں ! فرمایا کیا تم بیٹھ کر میری بات نہیں سنو گے ، انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں ، سنیں گے اس کے بعد سب بیٹھ گئے ، رسول اللہ ﷺ نے ان کو اللہ کی دعوت دی ، اسلام پیش کیا اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا (وہ سب اسلام لے آئے) ان کے اسلام کی (خدا کی طرف) سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مدینہ میں وہ یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے ، یہودی اہل کتاب اور اہل علم تھے اور یہ لوگ بت پرست اور مشرک یہودیوں سے ان کا کچھ جھگڑا ہوجاتا تھا تو یہودی کہتے تھے اب ایک نبی آنے والا ہے جس کی بعثت کا زمانہ قریب ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اور اس کے ساتھ ہو کر تم کو قوم عاد کی طرح قتل کریں گے بس اس گروہ نے جب رسول اللہ ﷺ کی بات اور اسلام کی دعوت سنی تو آپس میں کہنے لگے تم جانتے ہو کہ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کا نام لے کر یہودی تم کو دھمکی دیتے تھے اب یہودی تم سے اس کی مدد حاصل کرنے میں سبقت نہ کرنے پائیں، چناچہ سب نے حضور ﷺ کی تصدیق کی اور مسلمان ہوگئے اور وہ کہنے لگے ہم ایسی قوم کو چھوڑ کر آئے ہیں جن میں آپس کی جنگ اور دشمنی اتنی ہے کہ کسی قوم میں نہیں ہے ، اب امید ہے کہ اللہ آپ کے ذریعے سے اس میں اتفاق کرا دے گا ، عنقریب ہم انکے پاس جائیں گے اور ان کو اس بات کی دعوت دیں گے ، اگر اللہ نے ان سب کو آپ کے معاملے میں متفق کردیا ، آپ سے بڑھ کر پھر کوئی عزت یافتہ نہیں ہوگا ، پھر یہ لوگ آپ ﷺ کے پاس سے اپنے شہر کو لوٹ گئے اور مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ کا تذکرہ کیا اور مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی ، آپ ﷺ کا تذکرہ مدینہ میں اتنا پھیل گیا کہ انصار کے ہر گھر میں آپ ﷺ ہی کا چرچا ہونے لگا۔ (عقبہ اولی اور انصار کی جماعت کا بیعت کرنا) پھر آئندہ سال موسم حج میں انصار کے بارہ افراد آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے ان میں اسعد بن زرارہ ، عوف بن عفراء ، معاذ بن عفراء رافع بن مالک العجلانی ، ذکوان بن عبد القیس ، عبادۃ بن صامت ، یزید بن ثعلبہ ، عباس بن عبادہ ، عقبہ بن عامر ، قطبہ بن عامر، یہ سب خزرجی تھے اور ابو الہیثم بن تیھان اور عویم بن ساعدہ یہ دونوں اوس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ، عقبہ اولی میں آپ ﷺ سے ان کی ملاقات ہوئی آپ ﷺ نے ان سے ویسی ہی بیعت فرمائی جیسی عورتوں کو فرمائی تھی کہ تم شرک نہیں کرو گے اور نہ چوری کرو گے نہ زنا کرو گے ۔۔۔۔۔۔ الخ اگر تم ان کو پورا کرو گے تو تمہارے لیے جنت ہے ، اگر تم ان میں کسی کا ارتکاب کرو گے تو تمہیں اگر دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو وہ تمہارے گناہ کی تلافی ہوجائے گی لیکن اگر تمہارے جرم پر پردہ پڑا رہا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے تو وہ اس کا بدلہ لے اور چاہے تو وہ معاف کر دے ، راوی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ جنگ سے پہلے کا ہے جب یہ لوگ واپس آ رہے تھے تو اس وقت رسول اللہ ﷺ نے مصعب بن عمیر بن ہاشم بن مناف کو ان کے ساتھ کردیا اور حکم دے دیا کہ انکو قرآن کریم پڑھانا اسلام کی تعلیم دینا اور دین کا سمجھانا ، مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا نام مقری ہوگیا اور اسعد بن زرارہ کے گھر پر آپ کا قیام ہوا، کچھ عرصے کے بعد اسعد بن زرارہ حضرت مصعب ؓ کو لے بنی ظفر کے ایک باغ پر گئے اور اندر جا کر بیٹھ گئے وہاں دوسرے مسلمان بھی جمع ہوگئے ، دوسری طرف سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا یہ دونوں شخص ہمارے گھر آکر ہمیں کمزور سمجھ کر آدمیوں کو بہکانا چاہتے ہیں تم جا کر ان دونوں کو جھڑک کر نکال دو ، اسعد میرے ماموں کا بیٹا ہے اگر یہ رشتہ نہ ہوتا تو میں خود ہی یہ کام کرلیتا تمہاری ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔ سعد اور اسید بنی اشھل کے بڑے مشرکوں میں شمار ہوتے ہیں ، مشورہ کے مطابق اسید اپنا نیزہ لے کر مصعب اور اسعد کے پاس گیا ، دونوں باغ کے اندر بیٹھے ہوئے تھے ، اسید کو دیکھ کر اسعد نے مصعب ؓ سے کہا یہ آنے والا اپنی قوم کا سردار ہے اس کو مسلمان بناؤ ، مصعب ؓ نے جواب دیا اگر یہ بیٹھ جائے گا تو اس سے بات کروں گا ، اسید پہنچ کر دونوں کے سامنے کھڑا ہوگیا اور گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا تم ہمارے ہاں کیوں آئے ہو ، کیا ہمارے کمزور سمجھ والوں کو بیوقوف بنا رہے ہو ، اگر تم کو اپنی جان سے کچھ محبت ہے تو یہاں سے ہٹ کر چلے جاؤ مصعب ؓ نے کہا آپ بیٹھ کر ہماری بات تو سن لیجئے ، اگر آپ کو ہماری بات سمجھ میں آجائے تو مان لینا اگر ناپسند لگے تو آپ کے گراں لگنے کی وجہ سے بات نہیں کی جائے گی ، اسید نے کہا یہ بات تم نے ٹھیک کہی ، یہ کہہ کر نیزہ زمین میں گاڑھ کر دونوں کی طرف رخ کرکے بیٹھ گیا ، حضرت مصعب ؓ نے اسلام کے متعلق بات کہی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا ، مصعب ؓ کا بیان ہے ابھی وہ کچھ بولا بھی نہ تھا مگر ہم کو اس کے چہرے کی چمک اور بشاشت سے اسلام کے آثار نظر آنے لگے تھے، قرآن سننے کے بعد کہنے لگا یہ تو بڑی اچھی اور خوبصورت چیز ہے ، اچھا بتاؤ کہ اس مذہب میں داخل ہونے کے وقت تم کیا کرتے ہو ؟ مصعب ؓ اور اسعد نے جواب دیا غسل کرلو ، کپڑے پاک کرو ، پھر شہادت حق دو ، پھر دو رکعت نماز پڑھو ، اسید نے فورا اٹھ کر جا کے غسل کیا ، کپڑے پاکیزہ پہنے اور کلمہ شہادت پڑھ کر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کی اور کہنے لگے میرے پیچھے ایک اور آدمی ہے ، اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو اس کی قوم کا کوئی شخص تامل نہیں کرے گا ، وہ سعد بن معاذ ؓ ہے میں ابھی اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں ۔ پھر وہ اپنا نیزہ لے کر چوپال میں ٹھہر گیا ، سعد نے پوچھا پیچھے کیا چھوڑ آئے، اسید نے کہا خدا کی قسم میں نے تو ان میں کوئی جرات نہیں پائی ، میں نے ان کو روک دیا ، انہوں نے کہا جیسا آپ کو پسند ہے ہم ویسے ہی کریں گے لیکن مجھے ایک خبر ملی ہے کہ بنی حارثہ اسعد کو قتل کرنے نکلے ہیں کیونکہ اسعد تمہارے ماموں کا بیٹا ہے وہ اسکو قتل کرکے تم سے عہد شکنی کرنا چاہتے ہیں ، یہ سن کر سعد غضب ناک ہو کر فورا اٹھ کھڑا ہوا ، نیزہ ہاتھ میں لیا اور بولا خدا کی قسم ! میرے خیال میں تم نے کچھ کام نہیں کیا باغ میں پہنچ کر دیکھا تو مصعب اور اسد دونوں کو مطمئن پاک سمجھ گیا کہ اسید نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں خود پہنچ کر انکی بات سنوں ، جب سامنے جا کر کھڑا ہوا تو گالیاں دینے لگا ، پھر اسعد بن زرارہ سے بولا اگر مجھ سے تمہاری رشتہ داری نہ ہوتی تو پھر میرے متعلق تجھے یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی تو ہمارے گھر ایسی باتیں لے کر آتا ہے جن کو ہم ناپسند سمجھتے ہیں ، سعد کو دیکھتے ہی اسعد نے مصعب ؓ کو کہہ دیا تھا کہ یہ آنے والا اپنی قوم کا سردار ہے ، اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر اس کی قوم میں کوئی تمہاری مخالفت نہیں کرے گا ۔ مصعب ؓ نے سعد سے کہا ذرا بیٹھ کر ہماری بات سن لیجئے ، اگر آپ کو اچھی لگے تو سن لینا اور اگر ناپسند لگے تو ہم آپ کے سامنے نہیں بیان کریں گے ، سعد نے کہا کہ بات ٹھیک ہے پھر اپنا نیزہ زمین میں گاڑھ کر بیٹھ گیا ، انہوں نے اس پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی کچھ آیات تلاوت کیں اور ان دونوں نے کہا کہ ہم نے اس کے چہرے کی چمک اور خوشی دیکھ کر پہچان گئے کہ اس پر اسلام غالب آگیا، (یہ بات ہمین اس کے ساتھ کلام کرنے سے پہلے معلوم ہوگئی ) پھر سعد نے کہا جب تم مسلمان ہوتے ہو اور اس دین میں داخل ہونے کے لیے کیا کرتے ہو دونوں نے کہا کہ تم غسل کرلو اور اپنے کپڑے پاک کرلو ، پھر شہادت ادا کرو جیسا کہ اس کا حق ہے اور دو رکعت نماز (بطور شکرانہ) پڑھو ، نماز پڑھنے کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس گئے ساتھ اسید بن حضیر بھی تھے قوم والوں نے آتا دیکھ کر کہا خدا کی قسم اب سعد کا وہ چہرہ نہیں جو جاتے وقت تھا ، سعد نے قوم سے کہا اے بنی الاشھل تم مجھے اپنے اندر کیسا جانتے ہو ؟ قوم والوں نے کہا کہ آپ ہمارے سردار ہیں سب سے زیادہ آپ کی رائے فضیلت رکھتی ہے ، آپ کا قول وفعل نہایت مبارک ہے ، سعد نے کہا تو تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنا حرام ہے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لے آؤ ، سعد کے اس قول کے بعد بنی عبدالاشھل کے احاطہ میں کوئی مرد عورت بغیر اسلام لائے نہیں رہے اور اسعد بن زرارہ اور مصعب ؓ دونوں لوٹ کر اسعد کے گھر آگئے ، مصعب ؓ یہیں مقیم رہے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہتے ، یہاں تک کہ انصار کے گھروں میں کوئی گھر ایسا نہیں رہا جس میں کچھ مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہوں مگر بنو امیہ بن زید کے گھر اور خطمہ وائل اور واقف کے گھروں میں لوگ مسلمان نہیں ہوئے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں ابو قیس بن اسلت شاعر موجود تھا اور یہ خاندان والے اس کی بات سنتے اور مانتے تھے، اس نے سب کو اسلام قبول کرنے سے روکا ہوا تھا ، یہاں تک کہ آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لے گئے اور جنگ بدر ، احد ، خندق بھی گزر چکی تھیں۔ (عقبہ ثانیہ میں انصار کی بیعت) راوی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مصعب بن عمیر ؓ مکہ کی طرف لوٹے اور انصار کی ایک جماعت جو ستر افراد پر مشتمل تھی ان میں کچھ لوگ حاجی تھے اور بعض مشرک بھی تھے مکہ پہنچنے کے بعد وسط ایام تشریق میں عقبہ ثانیہ پر رسول کریم ﷺ سے ملاقات ہونے کا وعدہ ہوا ، یہی بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے کعب بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ میں اس وقت موجود تھا اور ہم حج سے فارغ ہوئے اور وعدہ ملاقات والی رات آئی ہمارے ساتھ عبداللہ بن عمرو بن حرام ابو جابر کو ہم نے بتایا اور ہم اپنے ساتھ والے مشرکین سے کچھ باتیں پوشیدہ رکھتے تھے مگر اس شخص کو بتلا دیا تھا ، اور اس سے گفتگو کرلی تھی اور کہہ دیا تھا کہ آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں اور ہمارے بزرگ ہیں ، ہم یہ نہیں چاہتے کہ کل آپ آگ کا ایندھن بنیں اس لیے جس حالت میں آپ ہیں اس حالت میں آپ کو چھوڑ دینا ہم کو پسند نہیں ، غرض ہم نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگیا اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے وعدہ ملاقات کی اس کو اطلاع دے دی اور عقبہ میں ہمارے ساتھ آگیا اور نقیب ہوگیا ۔ جس رات کا وعدہ تھا اس رات کی تہائی تک تو اپنی اپنی جگہوں پر گزارا جب ایک تہائی گزر گئی تو ہم اپنے آپ کو چھپتے چھپاتے قطار کی چال میں نکلے اور عقبہ کے پاس گھاٹی میں پہنچ کر جمع ہوئے ، اس وقت ہم ستر مرد اور دو عورتیں تھیں ، ایک بنی نجار کی ام عمارہ نسیبہ بنت کعب اور دوسری بنی سلمہ کی ام منیع اسماء بنت عمرو بن عدی گھاٹی کے اندر ہم رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے ، آخر رسول اللہ ﷺ حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ تشریف لے آئے، حضرت عباس ؓ نے فرمایا اے خزرج کی جماعت تم واقف ہو کہ محمد ﷺ ہم میں سے ہیں جو لوگ ہماری قوم میں ہمارے خیالات کے ہیں ان سے ہم نے ان کی حفاظت کی ہے، اپنی قوم میں باعزت اور اپنے شہر میں حفاظت سے ہیں لیکن یہ سب سے کٹ کر تم سے جڑنا چاہتے ہیں اور تم سے کٹنے پر راضی نہیں ہیں ، پس سوچ لو اگر اس بات کو تم پورا کرسکو جس کے لیے ان کو بلا رہے ہو اور مخالفوں سے ان کی حفاظت کرسکو تو تمہاری ذمہ داری تم پر ہے اور اگر تم پر یہ خیال کرتے ہو کہ جب یہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے تو تم ان کو بےیارومددگار اور بےسہارا چھوڑ دو گے تو ابھی سے ان کو چھوڑ دو ، یہ عزت و حفاظت کے ساتھ ہیں ، کعب کا بیان ہے ہم نے جواب دیا جو کچھ ہم سے آپ نے فرمایا ہم نے اس کو سن لیا لیکن اے رسول خدا ! ﷺ آپ خود کچھ فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے ہم سے جو عہد لینا چاہیں لے لیجئے ، راوی فرماتے ہیں ، کہ اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اور کلام اللہ کی تلاوت فرمائی ، اور اللہ کی طرف بلایا اور اسلام کی طرف راغب کیا پھر فرمایا میں تم سے ان شرطوں پر بیعت لیتا ہوں کہ تم جس طرح اپنے بال بچوں کی حفاظت کرو گے اسی طرح میری بھی حفاظت کرنا، یہ سن لو ، براء بن معرور نے دست مبارک پکڑ لیا اور عرض کیا ، قسم ہے اس کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم جس چیز سے اپنی اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے آپ کی حفاظت بھی کریں گے ، اے اللہ کے رسول ﷺ ہماری بیعت قبول فرمائیے ہم بھی جنگجو ہیں اور دوسرے لوگوں سے ہمارا معاہدہ ہے جو بزرگوں سے چلا آرہا ہے ۔ براء رسول اللہ ﷺ سے بات کر ہی رہے تھے کہ ابوالہیثم بن تیھان بیچ میں بول اٹھے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! ﷺ کچھ لوگوں سے ہمارے معاہدے ہیں اب انکو ختم کرنا پڑے گا کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم سب معاہدے ختم کردیں اور اللہ آپ کو غلبہ عنایت فرما دے تو ہم آپ کو چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف آجائیں ، یہ کلام سن کر آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا نہیں تمہارا خون میرا خون ہے تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ، جس سے تم لڑو گے میں بھی لڑوں گا جس سے تم صلح کرو گے میں بھی صلح کروں گا ، پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنی قوم سے بارہ نمائندے مقرر کرو جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی طرح اپنی اپنی قوم کے ذمہ دار ہوں ، حسب الحکم بارہ نمائندے چھانٹے گئے تو خزرجی اور تین اوسی ، عاصم بن عمرو ، بن قتادہ کا بیان ہے کہ جب بیعت کے لیے گئے لوگ جمع ہوگئے تو عباس بن عبادہ بن فضلہ انصاری نے کہا کہ اے گروہ خزرج کیا تم جانتے ہو کہ کس شرط پر تم اس شخص کی بیعت کر رہے ہو ہر سرخ اور کالے سے لڑنے کی بیعت کر رہے ہو اگر تمہارا خیال ہو کہ جب تمہارے مالوں پر کوئی مصیبت پڑے گی اور تمہارے سردار مارے جائیں گے تو تم اس کو بےیارومددگار چھوڑے جاؤ گے تو ابھی بعیت نہ کرو ورنہ اس وقت خدا کی قسم دنیا وآخرت کی رسوائی نصیب ہوگی اور اگر مالوں کی تباہی اور سرداروں کی ہلاکت کے باوجود تم اپنے اس وعدے کو پورا کرسکتے ہو جس پر تم اس شخص کو دعوت دے رہے ہو تو اس کو لے لو خدا کی قسم ! یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ،۔ انصار نے جواب دیا ہم مالوں کی تباہی اور سرداروں کے قتل ہوجانے کے بعد بھی ان کو نہیں چھوڑیں گے اور اسی شرط پر ان کو قبول کر رہے ہیں لیکن اے اللہ کے رسول ! ﷺ اگر ہم نے یہ شرط پوری کردی تو ہم کو اس کے عوض کیا ملے گا ؟ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جنت، انصار نے عرض کیا تو دست مبارک پھیلائیے ، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک پھیلایا سب نے بیعت کرلی ، پہلے براء بن معرور نے ہاتھ میں ہاتھ دیا، پھر دوسرے لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی ۔ (بیعت کے بعد شیطان کا چیخنا) جب ہم بیعت کرچکے تو عقبہ کی چوٹی سے بلند آواز سے شیطان نے پکار کر کہا اے اہل حباحب کیا تم کو مذمم (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔۔۔۔۔ (نعوذ باللہ) اور صباۃ (بےدین) کے ساتھ مل کر تم جنگ کے لیے متفق ہوگئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ اللہ کا دشمن ہے عقبہ کا ” ازب “ ہے ۔ (ازب اس وقت شیطان کا نام تھا) آپ ﷺ نے فرمایا اے دشمن خدا سن لے خدا کی قسم ! میں تیرے مقابلے کے لیے بالکل فارغ ہوجاؤں گا ، پھر فرمایا اب تم اپنی اپنی جگہ چلے جاؤ ، عباس بن عبادہ بن نضلہ نے عرض کیا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر آپ چاہیں تو ہم کل صبح ہی اہل منا پر تلواریں لے کر ٹوٹ پڑیں ، فرمایا مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا ، تم اپنی رہائش گاہ کی جگہ چلے جاؤ ، حسب الحکم ہم اپنی جگہ چلے گئے اور سو گئے، صبح ہوئی تو قریش کے بڑے بڑے لوگ ہمارے پڑاؤ پر آئے اور کہنے لگے اے گروہ خزرج ہم کو اطلاع ملی ہے کہ تم ہمارے اس ساتھی کے پاس آئے ہو اس کا کو ہمارے پاس سے نکال کرلے جانا چاہتے ہو اور ہمارے خلاف جنگ کرنے کے لیے اس سے بیعت کر رہے ہو خدا کی قسم ! عرب کے کسی قبیلے سے جنگ چھڑ جانا ہمارے نزدیک اتنی قابل نفرت نہیں جتنی تم سے ہے ، یہ سن کر ہمارے مشرک (خزرجی اور اوسی) کھڑے ہوگئے اور اللہ کی قسمیں کھا کر کہنے لگے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہمیں اس کا علم ہے ۔ حقیقت میں انہوں نے سچ کہا تھا ان کو بیعت کا علم ہی نہ تھا ان کی باتوں کے وقت ہم آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے، غرض سب لوگ اٹھ کر کھڑے ہوئے، ان میں سے ایک شخص حارث بن مغیرہ مخزومی نئی جوتیاں پہنے ہوئے تھا ، میں نے ابوجابر سے ایک بات کہی ، گویا میں مشرکین انصار کے کلام کی تائید کر رہاہوں اور بات یہ تھی کہ میں نے ان سے کہا ابوجابر تم ہمارے سرداروں میں سے ہو لیکن اتنی بھی تم میں استطاعت نہیں کہ اس قریشی جوان کی جوتیوں کی طرح جوتیاں ہی بنوالو، حارث نے یہ بات سنی تو فورا پاؤں سے جوتیاں نکال کر میری طرف پھینک دیں اور بولا خدا کی قسم ! اب تو انکو پہنے گا ، ابو جابر نے کہا ہائے تو نے جو ان کو غصہ دلا دیا ، جوتیاں واپس کر دے، میں نے کہا میں تو واپس نہیں کروں گا یہ شگون اچھا ہے ، اگر فال سچی ہوئی تو خدا کی قسم ! میں اس کے کپڑے اتار لوں گا ، غرض مضبوط معاہدہ کے بعد انصار مدینہ کو لوٹ گئے اور مدینہ میں اسلام کا ظہور ہوگیا ، قریش کو اس کی اطلاع ملی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو دکھ دینے لگے حضور اقدس ﷺ نے ساتھیوں سے فرمایا اللہ نے تمہارے کچھ بھائی بنا دیئے ہیں اور امن کی ایک جگہ بھی دیدی ہے تم ہجرت کر کے مدینہ چلے جاؤ اور اپنے انصاری بھائیوں میں مل کر رہو، اس حکم پر سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی تھے ، پھر عامر بن ربیعہ نے پھر عبداللہ بن جحش نے پھر پے درپے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب جانے لگے ۔ اسی طرح اسلام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مدینہ والے اوس اور خزرج کے قبیلوں کو متفق بنادیا اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ان میں باہم صلح کرا دی ۔ (آیت)” واذکروا نعمۃ اللہ علیکم “۔ یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر کی اے انصار کی جماعت (آیت)” اذ کنتم اعدائ “۔ اسلام سے پہلے تم آپس میں باہم دشمن تھے ، (آیت)” فالف بین قلوبکم “ تمہارے دلوں میں اسلام کی وجہ سے محبت ڈال دی ، (آیت)” فاصبحتم “ بس تم ہوگئے ، (آیت)” بنعمتہ “ اس کی رحمت اور اس کے دین اسلام کی وجہ سے ” اخوانا “ بھائی بھائی ، اور آپس میں ہمدردی پیدا کردی ، ” وکنتم “ اور تھے تم یعنی اوس اور خزرج کے جماعتو ! (آیت)” علی شفا حفرۃ من النار “ آگ کے کنویں کے کنارے پر تھے قریب تھا کہ تم اس میں گرپڑتے ، سوائے کفر پر موت کے کوئی چیز اس میں گرنے سے مانع نہیں رہی تھی ، ” فانقذکم “ پس تمہیں بچالیا اللہ نے ” منھا “ اس آگ سے ایمان کی وجہ سے (آیت)” کذلک یبین اللہ لکم ایۃ لعلکم تھتدون “۔
Top