Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
(مومنو ! ) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہت اچھا ہوتا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (لیکن تھوڑے) اور اکثر نافرمان ہیں
(شان نزول) 110۔ (آیت)” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “۔ عکرمہ اور مقاتل (رح) کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابی بن کعب ؓ حضرت معاذ بن جبل ؓ ، اور سالم مولی ابی حذیفہ ؓ ، کے متعلق نازل ہوئی ، واقعہ یہ ہوا کہ مالک بن صیف اور وہب بن یہود یہ دو یہودی تھے ، ان دونوں نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے کہا کہ ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا دین افضل ہے جس کی تم تبلیغ کرتے ہو ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (کنتم خیر امۃ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ ) سعید بن جبیر ؓ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ (آیت)” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “۔ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔ جویبر (رح) ، نے ضحاک (رح) کے حوالے سے روایت نقل کی کہ اس سے محمد ﷺ کے اصحاب ہیں جو حدیث کے نقل کرنے اور تبلیغ کرنے اور آنے والے مسلمانوں کو ان کی اتباع کرنے کا حکم دیا ، عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ (آیت)” کنتم خیر امۃ “۔ ہمارے اولین کے لیے ہے پچھلوں کے لیے نہیں ہے۔ عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ میری امت کا بہترین زمانہ جو میرے ساتھ ملاہوا ہے (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعینکا زمانہ) پھر وہ زمانہ جو اس سے ملا ہوا ہے (تابعین کا زمانہ) پھر وہ زمانہ جو ان کے ساتھ ملا ہوا ہو (تبع تابعین کا زمانہ) عمران ؓ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دو قرن کا ذکر فرمایا یا تین کا ، پھر اس کے بعد ایسی قوم آئے گی جو خیانت کرنے والی ہوگی امانت دار نہیں ہوگی وہ گواہی دیں گے لیکن وہ گواہی معتبر نہیں ہوگی اور وہ قسمیں اٹھائیں گے لیکن ان کو پورا نہیں کریں گے ان میں موٹاپا ظاہر ہوجائے گا ۔ ابی سعید ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو گالی نہ دو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جیسا سونا خرچ کردے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ایک مد صدقہ کرنے کے برابر بلکہ اس سے آدھا خرچ کرنے کے برابر نہیں پہنچے گا اور بعض نے کہا کہ تم سب مؤمن مل کر خرچ کرو تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی اس مقدار کے ثواب تک نہیں پہنچ سکتے ، ” کنتم “ سے مراد ” انتم “ ہے یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” واذکروا اذکنتم قلیلا “۔ یاد کرو اس وقت کو جب تم بہت تھوڑے تھے اور دوسرے جگہ فرمایا (آیت)” واذکروا اذانتم قلیل “۔ اور بعض نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم اللہ کے ہاں لوح محفوظ میں بہتر امت ہو۔ بعض نے کہا کہ ” للناس “ صلہ ہے ” خیر امۃ “ کا عبارت یوں ہوگی ” انتم خیر امۃ للناس “ لوگوں میں سے تم بہترین امت ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اس کا معنی کرتے ہیں کہ لوگوں کے لیے سب لوگوں سے بہتر ہو کہ وہ زنجیروں میں بندھے ہوئے آتے ہیں تم ان کو اسلام میں داخل کرلیتے ہو ۔ حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں ہم امت محمدیہ مراد ہیں کہ جن کو اس کے بعد کوئی نبی قتال کا حکم نہیں کرے گا اور وہ ان سے قتال کریں گے اور ان کو اپنے دین میں داخل کردیں گے وہ لوگوں میں بہترین امتی ہوں گے ۔ بعض نے کہا کہ ” للناس “ صلہ ہے ” اخرجت “ کا ، اس کا معنی یہ ہوگا اس امت محمدیہ سے بہتر کوئی امت اللہ نے نہیں نکالی ، بہز بن حکیم اپنے باپ وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (آیت)” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “۔ فرمایا کہ تم ستر امتوں کا تتمہ ہو اور تم سب سے بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ہو ۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ وہ حضور اقدس ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امت ستر امتوں کے آخر میں آئی جو اللہ کے نزدیک بہترین اور عزت والی ہے ، حضرت انس ؓ سے راویت ہے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کی مثال ایسی ہے جیسے بارش معلوم نہیں اس کا ابتدائی حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ ۔ حضرت سعید بن المسیب ؓ حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت کرتے ہیں وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں داخلہ تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) پر حرام قرار دیا گیا یہاں تک کہ میں اس میں داخل نہ ہوجاؤں اور تمام امتوں پر جنت کا داخلہ حرام قرار دیا گیا ہے جب تک کہ میری امت جنت میں نہ داخل ہوجائے عبداللہ بن بریدہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اہل جنتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی اور اسی (80) میری امت کی ہوں گی ، پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھا (آیت)” تامرون بالمعروف ۔۔۔۔۔ منھم المؤمنون واکثرھم الفاسقون “۔ فاسقون سے مراد کافر ہیں ۔
Top