Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے
133۔ (آیت)” وسارعوا “ قراء اہل شام و مدینہ والوں نے ” سارع “ بغیر واؤ کے پڑھا ہے (آیت)” الی مغفرۃ من ربکم “ اپنے اعمال میں سبقت کرو اور آگے بڑھو جو مغفرت کو واجب کرنے والا اعمال ہوں ۔ (سابقوا الی مغفرۃ ، کی مختلف تفاسیر) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اسلام لانے میں سبقت کرو ، ایک روایت میں ہے کہ توبہ کی طرف سبقت کرو ، یہی عکرمہ (رح) کا قول ہے ۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا بیان ہے کہ فرائض کے ادا کرنے میں سبقت کرو، ابو العالیہ فرماتے ہیں ہجرت کی طرف سبقت کرو ، ضحاک فرماتے ہیں کہ جہاد کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرو، مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ اعمال صالحہ کی طرف سبقت کرو ، انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ تکبیر اولی کی طرف سبقت کرو ، (آیت)” وجنۃ “ اور باغ کی طرف ۔ (آیت)” عرضھا السماوات والارض “ اس کی چوڑائی آسمان و زمین کی چوڑائی کے برابر ہے ، جیسا کہ سورة حدید میں مذکور ہے ، (آیت)” وجنۃ عرضھا کعرض السماء والارض “۔ ایسی جنت جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے ، یعنی اس مین وہ سما سکتی ہے ، یہاں پر طول کو ذکر نہیں کیا بلکہ چوڑائی کو ذکر کیا مبالغہ کے طور پر کیونکہ ہر چیز کی لمبائی ہوتی ہے یہاں پر عرض کو ذکر کرکے اس طرف اشارہ کیا کہ جب عرض کا یہ حال ہے تو طول کا کیا حال ہوگا ، امام زہری (رح) ، فرماتے ہیں کہ یہاں عرض کو ذکر کیا اس کی لمبائی صرف اللہ ہی جانتا ہے یہ ایک مثال ذکر فرمائی ہے نہ کہ واقعتا وہ آسمان و زمین کے برابر ہوگا جیسا کہ کہا جاتا ہے ۔ ” کعرض السموات والارضین السبع عند ضنکم “ (عوام کے خیال میں سب سے زیادہ وسیع آسمان و زمین ہے اس لیے آیت مبارکہ میں آسمان و زمین کی وسعت سے جنت کی وسعت کو تشبیہ دے کر بیان کیا جس طرح اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” خالدین فیھا مادامت السموت والارض “۔ میں جنت کے اندر دوام سکونتی کو بقاء ارض وسماء کی مدت سے تشبیہ دی ، یہ انسانوں کے خیال کے مطابق تشبیہ دی حالانکہ زمین و آسمان دونوں فنا ہونے والے ہیں ، ہمیشہ قائم نہیں رہیں گے ۔ طارق شہاب سے روایت کرتے ہیں کہ یہود کے کچھ لوگوں نے عمر بن الخطاب ؓ سے سوال کیا حضرت عمر ؓ کے پاس اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی موجود تھے ، انہوں نے کہا کہ کیا تم اس آیت کو نہیں دیکھتے (آیت)” وجنۃ عرضھا السموت والارض “۔ آگ کہاں ہے اس پر حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ کیا تمہارے پاس جب رات آتی ہے تو دن کہا ہوتا ہے ؟ اور جب دن آتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے ؟ وہ کہنے لگے یہ مثال تو تورات میں بھی ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ چاہے ، اگر یہ سوال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت)” وفی السماء رزقکم وما توعدون “ اور آسمان میں تمہارے لیے رزق ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ، اگر جنت آسمان میں ہے تو پھر اس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر کیسے ہوسکتی ہے کہا گیا ہے جنت میں ایک دروازہ کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے۔ انس بن مالک ؓ سے پوچھا گیا کہ جنت آسمان میں ہے یا زمین میں ہے ؟ فرمایا کس زمین و آسمان میں جنت کی سمائی ہوسکتی ہے ، دریافت کیا گیا پھر کہاں ہے ؟ فرمایا ساتوں آسمانوں کے اوپر اور جہنم ساتوں زمینوں کے نیچے ہے، قتادہ (رح) ، فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یہ خیال کرتے تھے کہ جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر اور عرش کے نیچے ہے اور جہنم ساتوں زمینوں کے نیچے ہے ۔ (آیت)” اعدت للمتقین “۔
Top