Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 138
هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ
ھٰذَا : یہ بَيَانٌ : بیان لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَھُدًى : اور ہدایت وَّمَوْعِظَةٌ : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بیان صریح اور اہل تقوی کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے
138۔ (آیت)” قد خلت من قبلکم سنن “۔ عطاء سے مراد شرائع اسلام ہیں ، کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ ہر قوم کے لیے اللہ کی طرف سے ایک طریقہ اور راستہ رہا ہے جن لوگوں نے اس کو مانا اور اس پر چلے اللہ ان سے راضی ہوا ، مجاہد (رح) نے کہا کہ تم سے پہلے بھی قومیں ہلاک ہوئیں جنہوں نے تم سے پہلے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تکذیب کی ، بعض نے کہا کہ سنن سے مراد امتیں ہیں اور سنت سے مراد امت ہے جیسا کہ شاعر کا قول ہے ۔ ماعاین الناس من فضل کفضلکم ولا راو امثلکم فی سالف السنن : لوگوں نے ان کے فضل جیسا کہ کوئی فضل اور ان کی طرح کوئی قوم گزشتہ اقوام میں نہیں دیکھی ، بعض نے کہا کہ سنن سے مراد اہل سنن ہیں ، سنت اس طریقہ کو کہا جاتا ہے جو خیر یا شر کی پیروی کرے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اچھا طریقہ ایجاد کیا اور برا طریقہ ایجاد کیا ، جب کوئی شخص ایسا عمل کرے گا جس سیء اس کی اقتداء یعنی پیروی کی جائے خیر ہو یا شر ، آیت کا معنی یہ ہوگا کہ تم سے پہلے خیر وشر کے بہت طریقے یا بہت طریقوں والے گزر گئے تم ملک میں چل پھر کر دیکھ لو کہ تکذیب خیر کا نتیجہ کیسے ہوا اور جھٹلانے والوں کا انجام کیسے ہوا ، (آیت)” فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین “۔ ان جھٹلانے والوں کو عنقریب بدلہ دیں گے اور یہ بدلہ جنگ احد میں ہوا جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ہم انکو مہلت دیتے ہیں تاکہ یہ اپنے انجام کار تک پہنچ جائیں اور نبی کریم ﷺ کی نصرت ہو اور ان کے مددگاروں کی اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کی صورت میں ۔
Top