Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
(جب) ان سے لوگوں نے آ کر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے (مقابلے کے) لئے (لشکر کثیر) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا اور کہنے لگے ہم کو خدا کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے
(تفسیر) 173۔ : (آیت)” الذین قال لھم الناس “ الذین منصوب ہے یا تو (آیت)” الذین استجابوا “ سے بدل ہوگا ، یا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے فعل محذوف امدح ہوگا (آیت)” الناس “۔ سے مراد نعیم بن مسعود ؓ ہے اور یہی قول مجاہد (رح) اور عکرمہ (رح) کا ہے ، عام سے خاص کو مراد لیا گیا ، جیسا کہ اس آیت میں (آیت)” ام یحسدون الناس “۔ اس سے اکیلے محمد ﷺ مراد ہیں ،۔ محمد بن اسحاق اور ایک جماعت کے نزدیک الناس سے مراد عبدالقیس کے شاہ سوار ہیں ، (آیت)” ان الناس قد جمعوا “۔ یہاں الناس سے مراد ابوسفیان اور اس کے ساتھی ہیں ۔ ” فاخشوھم “ پس تم ان سے ڈرو اور ان سے بچو کیونکہ ان کے مقابلے میں تمہاری کوئی طاقت نہیں (آیت)” فزادوھم ایمانا “۔ ان کی تصدیق اور ایمان میں مزید اضافہ فرما دیا (آیت)” وقالوا حسبنا اللہ “ اللہ ہمیں کافی ہے (آیت)” ونعم الوکیل “ سارے امور تمہاری طرف ہی ہیں ، فعیل بمعنی مفعول کے ہے ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا (آیت)” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ اس جملہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت کہا تھا جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور حضرت محمد ﷺ نے بھی یہی ارشاد فرمایا جب ان کو لوگوں نے کہا (آیت)” لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔
Top