Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 90
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : اپنے ایمان ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا : بڑھتے گئے كُفْرًا : کفر میں لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز نہ قبول کی جائے گی تَوْبَتُھُمْ : ان کی توبہ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ ھُمُ : وہ الضَّآلُّوْنَ : گمراہ
جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ایسوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی اور یہ لوگ گمراہ ہیں
90۔ (آیت)” ان الذین کفروا بعد ایمانھم ثم ازدادوا کفرا “۔ حضرت قتادہ (رح) ، حسن بصری (رح) کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول یہودیوں کے حق میں ہوا جنہوں نے تورات اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اسلام لانے کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل پر ایمان لانے سے انکار کردیا ، پھر آپ ﷺ اور قرآن کریم کا انکار کر کے کفر میں مزید ترقی کرلی ، ابوالعالیہ ؓ کہتے ہیں کہ اس آیت کا نزول یہود و نصاری دونوں کے متعلق ہوا کہ ان دونوں فریقوں نے آپ ﷺ کے اوصاف اور ان کے انعامات اپنی کتابوں میں پڑھے اور ان کو مانا لیکن بعث نبوی ﷺ کے بعد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے اور اس انکار کی وجہ سے ان کے کفر میں مزید ترقی ہوگئی ، امام مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کا نزول تمام کفار کے متعلق ہوا جو اللہ کے خالق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود شرک کرتے ہیں پھر کفر میں بڑھ جاتے ہیں یعنی مرتے دم تک کفر پر قائم رہتے ہیں ، حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ کفر میں زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ جو آیت آپ ﷺ پر اترتی گئی اس کا انکار کرتے گئے ، بعض نے کہا کہ کفر میں زیادتی ان کے ان قول کی وجہ سے ہے ” نتربص بمحمد ریب المنون “۔ (ہم محمد ﷺ کے مرنے کے منتظر ہیں) (شان نزول) کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کا نزول حارث بن سوید کے ساتھیوں کے متعلق ہوا کہ حارث کے اسلام لانے کے بعد بھی وہ کفر پر قائم رہے اور مکہ میں مقیم رہے اور وہ کہنے لگے کہ ہم کفر پر ڈٹے رہیں گے ہمیں کوئی اس راستہ سے ہٹا نہیں سکتا ، اور جب واپس لوٹنے کا ارادہ کرتے تو کہتے کہ یہ آیت تو ہمارے لیے نازل ہوئی ہے ، حارث بن سوید کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ، جب مکہ فتح ہوا تو جو شخص تم میں سے اسلام لائے گا اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور جو کافر ہو کر مرے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، (آیت)” ان الذین کفروا وماتوا وھم کفار “۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو تم میں سے توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کی جائے گی پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے (آیت)” ولیست التوبۃ للذین یعملون السیئات حتی اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الان “۔ اور بعض نے کہا یہ حارث بن سوید کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ، جب انہوں نے اسلام سے اعراض کیا اور وہ کہنے لگے ” نتربص بمحمد ریب المنون “۔ زمانے کے پلٹنے کے ساتھ وہ بھی اپنے دین سے رجوع کرلیں گے ، (آیت)” لن تقبل توبتھم “۔ ان کی توبہ اسی وجہ سے قبول نہیں ہوتی کیونکہ یہ منتظر ہیں بغیر کسی دلیل وحجت کے اور یہ گمراہ لوگ ہیں ، (واولئک ھم الضالون)
Top