Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
(مو منو ! ) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کرسکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
(تفسیر) 92۔: (آیت)” لن تنالوا البر “۔ بر کا معنی جنت سے کیا ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ابن مسعود ؓ اور مجاہد (رح) اور مقاتل (رح) نے کہا کہ اس سے مراد تقوی ہے ، بعض نے کہا طاعت بعض کے نزدیک بھلائی ہے ، حسن (رح) فرماتے ہیں کہ تم (ابرار) خیر کثیر نہیں ہوسکتے ۔ حضرت شقیق ؓ عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ صدق نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور بر (نیکی) جنت کی طرف لے جاتی ہے، آدمی لگا تار سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی نیت کرتا ہے تو اللہ کے ہاں اس کو صدیق لکھ دیا جاتا ہے ، جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے اور بدکاری دوزخ کی طرف لے جاتی ہے ، آدمی لگا تار جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی نیت کرلیتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے (آیت)” حتی تنفقوا مما تحبون “۔ جو تمہارا پسندیدہ محبوب مال ہے۔ (اپنے پسندیدہ مال سے صدقہ اور زکوۃ ادا کرنا) ضحاک (رح) نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کے حوالے سے لکھا ہے اس سے مراد زکوۃ کی ادائیگی ہے ، مجاہد (رح) اور کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت زکوۃ کی آیت سے منسوخ ہے۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسلمان جو مال خرچ کرے گا وہ اس نیکی تک پہنچ جائے گا عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ تم دین میں فضیلت اور تقوی اس وقت نہیں پاسکتے جب تک تم صحت اور ضرورت کی حالت میں اس کو خیرات نہ کرو۔ (حضرت طلحہ ؓ کا اپنا باغ صدقہ کردینا) اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار تھے اور آپ کا پسندیدہ مال بیرحاء (بستان) تھا جو مسجد کے سامنے تھا آپ ﷺ کبھی کبھار جا کر وہاں کا عمدہ پانی پیتے تھے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ تو حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (آیت)” لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ مجھے اپنے مال میں بیرحاء بہت پسند ہے میں اللہ کی خوشنودی کے لیے کو دیتا ہوں میں امید کرتا ہوں ، اللہ اس کا ثواب اور اجر میرے لیے جمع کرے گا ، آپ ﷺ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا واہ ، واہ کیا بات ہے یہ تو نفع بخش مال ہے جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا میری رائے یہ ہے کہ تم اس کو اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کرلو ، حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میں ایسا ہی کروں گا ، چناچہ ابو طلحہ ؓ نے وہ باغ اپنے اقرباء اور چچا زادوں کو تقسیم کردیا ۔ مجاہد نے روایت نقل کی کہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے حضرت موسیٰ اشعری ؓ کو خط لکھا کہ جلولاء کے قیدیوں میں سے کوئی باندی خرید لو، وہ باندی حضرت عمر ؓ کے پاس لے آئے ان کو یہ باندی بہت پسند آئی ، حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں (آیت)” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “۔ حضرت عمر ؓ نے اس کو آزاد کردیا ، حضرت حمزہ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ؓ کے دل میں جب یہ آیت کھٹکی تو دل میں سوچا کہ خدادا نعمتوں میں سے مرغوب چیز کیا ہے سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ فلاں باندی سے زیادہ دل کو محبوب اور کوئی چیز نہیں میں اس باندی کو آزاد کرتا ہوں فرمایا کہ بارگاہ الہی میں پیش کی ہوئی چیز کو واپس لینے کا خیال نہ ہوتا تو میں اس سے نکاح کرلیتا (آیت)” وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم “۔ اللہ اس سب کو جانتا ہے اور اسی کو بدلہ دے گا ۔
Top