Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ
: اور اتار دیا
الَّذِيْنَ
: ان لوگوں کو
ظَاهَرُوْهُمْ
: جنہوں نے ان کی مدد کی
مِّنْ
: سے
اَهْلِ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
مِنْ
: سے
صَيَاصِيْهِمْ
: ان کے قلعے
وَقَذَفَ
: اور ڈال دیا
فِيْ
: میں
قُلُوْبِهِمُ
: ان کے دل
الرُّعْبَ
: رعب
فَرِيْقًا
: ایک گروہ
تَقْتُلُوْنَ
: تم قتل کرتے ہو
وَتَاْسِرُوْنَ
: اور تم قید کرتے ہو
فَرِيْقًا
: ایک گروہ
اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو انکے قلعوں سے اتار دیا اور انکے دلوں میں دہشت ڈال دی تو کتنوں کو تم قتل کردیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے
26، وانزل الذین ظاھروھم من اھل الکتاب ، یعنی احزاب کی مدد کی کہ قریش وغطفان کی جماعتوں کی پشت پنا ہی کی تھی ، ان کو ان کی گڑھیوں سے نیچے اتارلا یا۔ ، من صیا صیھم ، گڑحی قلعہ اس کا واحدصیصیہ ہے۔ اسی ہرن کے سینگ مرغ کا کا نٹا اور جولا ہے کا تانا ٹھیک کرنے کا اوزار ان سب کو اسی مناسبت سے صیصیہ کہا جاتا ہے۔ واقعہ بنی قریظہ یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان جب تھکے ہارے خندق سے لوٹے تو ہتھیارکھول دیئے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے مکان میں تشریف لے گئے اور پانی طلب کرکے سر دھونے لگے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ حضرت زینب بنت حجش ؓ کے مکان میں تشریف لے گئے اور حضرت زینب ؓ آپ کا سر دھونے لگیں اور ایک طرف کا سربھی دھودیا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ (باہر) کسی شخص نے ہم کو سلام کیا ، ہم گھرکے اندر تھے۔ محمد بن عمر ونے کہا : وہ شخص جنازوں کے رکھنے کے مقام میں کھڑا تھا اس نے پکار کر کہا : اے جنگ کرنے والے ! (ہتھیار کھودینے کا) تمہارے پاس کیا عذ رہے ؟ حضور ﷺ آواز سنتے ہی گھبرا کر اچھل پڑی اور یکدم تیزی سے کود کر باہر نکل گئے ۔ میں بھی آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور کو اڑوں کے سوراخ میں سے دیکھنے لگی ۔ مجھے وحیہ کلبی کی صورت نظر آئی جو اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے۔ ابن اسحاق نے کہا : وہ شخص عمامہ لپیٹے ہوئے تھا اس شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے جلد ہتھیار کھول دیئے ، اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے ہتھیار کھول کر رکھ دیئے حالانکہ جب سے دشمن اترا ہے ملائکہ نے اس وقت سے اب تک اسلحہ نہیں کھولے ۔ دوسری روایت میں ہے چالیس دن سے ملائکہ نے اسلحہ نہیں کھولے ۔ ہم نے حمراء الا سدتک ان کا تعاقب کیا ۔ اس وقت انہیں کے تعاقب سے لوٹ کر آئے ہیں۔ اللہ نے ان کو بھگادیا اور آپ کو حکم دیا ہے کہ بنی قریظہ سے جاکر جنگ کرو۔ میں اپنے ساتھ والے ملائکہ کو لے کر انہیں کی طرف جارہاہوں تا کہ ان کے قلعوں میں زلزلہ پیداکردوں۔ آپ بھی لوگوں کو لے کر نکل کر (میرے بعد) آیئے۔ حمید بن ہلال کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے ساتھی تھک چکے ہیں ، اگر آپ چند روز کی انہیں مہلت دے دیں تو بہتر ہے ۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا : آپ اٹھ کر ان پر چڑھائی تو کریں ، میں ان کو اس طرح اے پٹکوں گا جیسے انڈاپتھر کی جٹان پر پٹکاجاتا ہے پھر ان کو ہلاڈالوں گا (یعنی قلعوں سے باہر نکل پڑنے پر مجبور کردوں گا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا) ۔ محمد بن عمر و کی روایت ہے کہ حضرت ابوقتادہ نے فرمایا : جب ہم بنی قریظہ پر پہنچے تو ہم نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کو لڑائی کا یقین ہوچکا ہے۔ حضرت علی ؓ نے جا کر قلعہ کی جڑ میں جھنڈاگاڑدیا۔ ان لوگوں نے اپنی گڑھیوں کے اندر سے ہی گالیوں سے ہمارا استقبال کا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کو (نعوذ باللہ ) برابھلا کہا مگر ہم خاموش رہے اور ہم نے کہہ دیا کہ ہمارا تمہارافیصلہ تلوار سے ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ بھی پہنچ گئے اور ان کے قلعہ کے قریب بنی قریظہ کے پتھر یلے میدان کی نشیبی جانب چہ انا پر نزول فرمایا۔ حضرت علی ؓ نے حضور ﷺ کو دیکھا تو مجھے حکم دیا کہ میں جھنڈاپکڑلوں ، میں نے جھنڈا پکڑلیا۔ حضرت علی ؓ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے کان میں ان لوگوں کی گالیاں اور گندے الفاظ پہنچیں، اس لیے عرض کیا : یارسول اللہ ! اگر آپ ان خبیثوں کے قریب نہ پہنچیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تم مجھے واپس جانے کا مشورہ دے رہے ہو ؟ میراخیال ہے کہ تم نے ان کی طرف سے کچھ گندے الفاظ سن لیے ہیں ۔ حضرت علی ؓ نے کہا ـ: جی ہاں۔ فرمایا : اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کچھ بھی اس طرح کی بات نہ کہتے ۔ غرض رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے آگے آگے اسید بن حضیر تھے ، اسید نے کہا : اے اللہ کے دشمنو ! جب تک تم بھوکے نہ مرجاؤگے ہم تمہارے قلعوں سے نہیں ہٹیں گے (یعنی رسدنہ ملنے کی وجہ سے تم بھوکے مرجاؤ گے، ہم محاصر نہیں اٹھائیں گے) تم (اس وقت) اس طرح (گڑھیوں میں محصور اور بند) ہوجی سے بھٹ کے اندرلومڑی ۔ بنی قریظہ نے کہا : اے ابن حضیر ! خزرج کے مقابلہ میں ہم نے تم سے معاہدہ کیا تھا (ہم تمہارے حلیف تھے) حضرت اسید نے کہا : اب میرے تمہارے درمیان نہ کوئی معاہدہ باقی ہے اور نہ رشتہ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ (یہودیوں کی گڑھی کے) قریب پہنچ گئے اور اتنی اونچی آواز سے یہودیوں کے کچھ سرداروں کو پکارا کہ انہوں آوازسن لی اور فرمایا : اے بند روں اور سوروں کے بھائیو ! اور اے بتوں (یاشیطانوں) کی پرستش کرنے والو ! جواب دو کیا اللہ نے تم کو رسوا کردیا اور تم پر اپنا عذاب نازل فرمادیا ؟ کیا تم مجھے گالیاں دیتے ہو ؟ (اندرون حصن سے ) ان لوگوں نے قسمیں کھاکر کہا : ابوالقاسم ! ہم نے ایسا نہیں کیا آپ تو جاہل نہیں ہیں ۔ دوسری روایت میں جاہل کی جگہ فحش گوکالفظ آیا ہے۔ قتادہ نے ابن عابد کی روایت کے بموجب بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے وسلم نے اس روز ایک منادی کو (مسلمانوں کی بستیوں میں ) یہ ندا کرنے کے لیے بھیج دیا کہ اے سوار ان خدا ! سوار ہوجاؤاور حضرت بلال کو اعلان کرنے کا حکم دیا کہ جو سننے والے فرمانبر دار ہوں، ان کو عصر کی نماز بنی قریظہ تک پہنچنے سے پہلے نہ پڑھنی چاہیے (یعنی ہر شخص پر لازم ہے کہ عصر کی نماز بنی قریظہ کی بستی میں پہنچ کر ہی پڑھے) ۔ شیخین نے حضرت کعب بن مالک کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا : میں تم کو تا کیدی حکم دیتا ہوں کہ عصر کی نماز (بنی قریظہ کی بستی تک پہنچنے سے پہلے کہیں ) نہ پڑھنا۔ مسلم نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے ظہر کی نماز کے متعلق حکم دیا تھا ۔ چناچہ راستہ میں جب عصر کی نماز یا حسب روایت مسلم ظہر کی نماز کا وقت آگیا تو بعض لوگوں نے کہا : ہم تو بنی قریظہ میں پہنچ کر عصر کی نماز پڑھیں گے، اس سے پہلے نہیں پڑھیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو تاکیدی حکم دیا ہے (اگر نماز میں تاخیر ہوگئی ) ہم پر کوئی گناہ نہ ہوگا ۔ غروب آفتاب کے بعد جب بنی قریظہ پہنچے تو ان لوگوں نے عصر کی نماز پڑھی ۔ کچھ لوگوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز نہ پڑھیں (بلکہ جلد پہنچنے کی تاکید مقصود تھی) اس لیے ہم تو راستہ میں ہی میں نماز پڑھیں گے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچ گئی مگر آپ ﷺ نے کسی فریق کو تنبیہ نہیں کی۔ شام کو مسلمان رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے ۔ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے چھوہاروں کی کچھ بوریاں بھیج دیں۔ یہی اس روز کا کھانا ہوا۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : چھوہارے اچھا طعام ہیں ۔ صبح کو رسول اللہ ﷺ سحر سے اٹھ گئے اور تیر اندازوں کو آگے بھیج دیا۔ تیراندازوں نے جاکر یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا اور تیرچلا نا اور پتھر پھینکنا شروع کردیئے ۔ قلعوں کے اندر سے یہودی بھی تیر اور پتھر پھینکتے رہے۔ دن اسی طرح گزر گیا جب شام ہوگئی تو رات بھر مسلمان قلعوں کا محاصرہ کیے رہے اور باری باری سے دیوٹی دیتے رہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کی طرف سے یہ تیرافگنی برابر جاری رہی ۔ یہاں تک کہ یہودیوں کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا اور انہوں نے تیر افگنی چھوڑدی اور مسلمانوں سے کہا کہ (لڑائی بند کرو) ہم تم سے کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہت رہے۔ یہودیوں نے گڑھی کے اوپر سے نباش بن قیس کو اتار کر بھیجا ۔ نباش نے آکر رسول اللہ ﷺ سے بات چیت کی اور یہ شرط پیش کی کہ جن شرائط پر بنی نضیر نے صلح کی تھی ہم بھی انہی شرائط پر صلح کرنا چاہتے ہیں ۔ شرائط یہ ہیں کہ اپنا مال (نقد جنس وغیرہ) اور اسلحہ لے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں سمیت تمہاری بستیاں چھوڑ جائیں گے اور سوائے اسلحہ کے باقی مال جتنا اونٹوں پر لاداجائے گا، لاد کرلے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کردیا۔ یہودیوں نے کہا تو خیر ہم کو مال کی ضرورت نہیں ، ہم مال نہیں لے جائیں گے ۔ البتہ عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ بحفاظت لے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط ماننے سے بھی انکار کردیا اور فرمایا : بلا شرط تم کو گڑھیوں سے اتر کر آنا ہوگا ہم جو فیصلہ کردیں گے اس کو ماننا پڑے گا۔ نباش یہ جواب لے کر بنی قریظہ کے پاس لوٹ گیا اور قوم سے جاکر جو گفتگوہوئی وہ نقل کردی ۔ کعب بن اسد نے کہا : اے گروہ بنی قریظہ ! جو مصیبت تم پر نازل ہوئی ہے وہ تمہاری نظروں کے سامنے ہے ۔ اب میں تین باتیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں تم ان میں سے جوچاہواختیار کرلو۔ بنی قریظہ نے کہا : وہ باتیں کون سی ہیں ؟ کعب نے کہا : پہلی بات یہ کہ تم اس شخص کی بیعت کرلو اور اس کو سچامان لو کیونکہ بخدا یہ وہی نبی مرسل ہے جس کا ذکر تمہاری کتاب میں موجود ہے۔ یہ بات تمہارے سامنے واضح طور پر آچکی ہے۔ اس صورت میں تمہاری جانیں اور مال اور عورتیں محفوظ رہیں گی۔ بخدا ! تم خوب جانتے ہو کہ محمد (ﷺ) بنی ہیں، ہم کو ان کا ساتھی ہونے سے سوائے اس حسد کے اور کوئی امرمانع نہیں تھا کہ یہ عرب میں سے ہیں بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں مگر اللہ نے یہ مقام (نبوت) ان کو عطا فرمادیا۔ مجھے عہد شکنی اور وعدہ کی خلاف ورزی پہلے ہی پسند نہ تھی لیکن یہ مصیبت اور نحو ست اس شخص (یعنی حیی بن اخطب ) کی وجہ سے آئی جو بیٹھا ہوا ہے۔ جب قریش اور بنی غطفان واپس چلے گئے تو حیی کعب بن اسد سے کیے ہوئے وعدہ کے مطابق بنی قریظہ کے پاس قلعہ میں آگیا تھا (اسی کی طرف کعب نے اشارہ کیا) کیا ابن جو اس کی بات تم کو یاد ہے جو اس نے تم سے کہی تھی ؟ یہودیوں نے پوچھا : کیا کہا تھا ؟ کعب نے جواب دیا : جو اس نے کہا تھا کہ اس بستی میں ایک نبی کا خروج ہوگا ۔ اگر میری زندگی میں اس کا خروج ہوگیا تو میں اس کی پیروی اور مدد کروں گا اور اگر میرے بعد وہ پیدا ہواتوتم اس کا اتباع کرنا۔ خبردار ! کسی کے بہکاوے میں نہ آجانا اس کے مددگار اور دوست رہنا ۔ اگر تم ایسا کروگے تو دونوں کتابوں پر تمہارا ایمان ہوجائے گا اول کتاب پر بھی اور آخری کتاب پر بھی ۔ ان کو میراسلام کہہ دینا اور بتادینا کہ میں ان کو سچاجانتا ہوں اور ان پر ایمان رکھتا ہوں۔ کعب نے کہا :(اے معشر یہود ! ) آؤ ہم اس سے بیعت کرلیں اور اس کے سچے ہونے کا اعتراف کرلیں ۔ بنی قریظہ نے کہا ہم توریت کا حکم تو کبھی نہیں چھوڑیں گے اور شریعت تو ریت کے بجائے دوسری شریعت کو نہیں اختیار کریں گے۔ کعب نے کہا : جب تم یہ بات نہی مانتے تو پھر دوسری بات یہ کہ آؤہم پہلے اپنے بیوی بچوں کو قتل کردیں پھر محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھیوں کے مقابلہ میں تلواریں سونت کر نکل آئیں ۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارا اور محمد (ﷺ) کا فیصلہ کردے۔ اگر ایسی حالت میں مرجائیں گے تو اپنے پیچھے کسی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے کہ ہمیں اس کے متعلق اندیشہ ہو اور اگر غالب آجائیں گے تو یقینا ہم کو اور بیویاں اور بچے مل جائیں گے۔ یہودیوں نے کہا : ہم ان بیچا روں کو کیسے قتل کرسکتے ہیں، ان کے بغیر جینے میں کیا لذت رہ جائے بیویاں اور بچے مل جائیں گے۔ یہودیوں نے کہا : ہم ان بیجاروں کو کیسے قتل کرسکتے ہیں، ان کے بغیر جینے میں کیا لذت رہ جائے گی ۔ کعب نے کہا : جب یہ بات بھی تم تسلیم نہیں کرتے تو پھر تیسری بات یہ سمجھ لو کہ آج شنبہ کی رات ہے، محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی بےفکر ہوں گے (کہ یہودی آج حملہ نہیں کرسکتے) تم نیچے اترو ممکن ہے غفلت کی حالت میں محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کرنے میں ہم کو کا میابی مل جائے ۔ یہودیوں نے جواب دیا : ہم یوم السبت (کے حکم ) کو بگاڑ نہیں سکتے تم جانتے ہو کہ ہم سے پہلے (ہمارے اسلاف میں سے ) جن لوگوں نے یوم السبت میں بدعت (خلاف شرع حرکت کی تھی ) ان پر کیسا مسخ شکل کا عذاب آیا تھا ، اس لیے ہم ایسی حرکت نہیں کرسکتے کہ ہم پر بھی وہ عذاب آجائے ۔ کعب نے کہا : تم میں سے کوئی بھی جب سے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اب تک ایک دن کے لیے بھی کبھی سمجھ دار (دانش مند) نہیں ہوا۔ اہل مغازی کا بیان ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیام بھیجا کہ ہم ابو لبا بہ سے اپنے معاملہ میں مشورہ کرنا چاہتے ہیں ، آپ ان کو ہمارے پاس بھیج دیئے ۔ حضرت ابو لبابہ خاندان عمر وبن عوف کے ایک فرد تھے اور یہودی قبیلہ اوس کے حلیف تھے۔ حضور ﷺ نے ابو لبابہ کو ان کے پاس بھیج دیا۔ ابو لبابہ پہنچے تو یہودی مردان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اور عورتوں اور بچوں نے ان کے سامنے روناشروع کردیا۔ ابولبابہ کو ان پر رحم آگیا ۔ یہودیوں نے کہا : ابو لبابہ آپ کی کیا رائے ہے، کیا محمد (ﷺ) کے کہنے سے ہم گڑھیوں سے اتر آئیں ؟ ابولبابہ نے (زبان سے تو) کہاہاں (لیکن ) ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کردیا۔ مراد یہ تھی کہ قتل کردیئے جاؤگے۔ حضرت ابولبابہ کا بیان ہے کہ میں اس جگہ سے ہٹنے بھی نہ پایا تھا کہ مجھے خیال آگیا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ خیانت (بد عہدی) کی۔ حضرت ابولبابہ وہاں سے چل کرسید ہے مسجد میں آئے اور ایک ستون سے اپنے کو بندھوادیا ۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس جگہ سے نہیں ہٹوں گا ۔ یہاں تک کہ مرجاؤں یا جو حرکت مجھ سے ہوئی ہے اللہ اس کو معاف فرمادے۔ میں نے اللہ سے عہد کرلیا ہے کہ بنی قریظہ کی سرزمین پر قدم نہیں رکھوں گا اور جس آبادی میں میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بد عہدی کی ہے اس میں کبھی مجھے کوئی نہیں دیکھے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کو میرے جانے کی اور اس عمل کی جو مجھ سے سرزدہوگیا تھا اطلاع پہنچی تو فرمایا : اس کو اس وقت تک یونہی رہنے دوجب تک اللہ اس کے بارے میں کوئی حکم جدید نازل نہ فرمادے ۔ وہ اگر میرے پاس آجاتا تو میں اللہ سے اس کے لیے معافی کی دعا کرتا لیکن جب وہ میرے پاس نہیں آیا اور خود چلا گیا تو اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ اسی واقعہ کے سلسلہ میں آیت، یا یھا الذین امنو الا تخونو اللہ والرسول انخونوا اماناتکم وانتم تعلمون، اس کے بعد ابو لبابہ کی توبہ قبول ہونے کی وحی رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ، اس وقت حضور ﷺ حضرت ام سلمہ کے مکان میں تھے ۔ حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے سناتو عرض کیا : یارسول اللہ ! اللہ آپ کو ہنستارکھے ، آپ ﷺ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں ؟ فرمایا : ابو لبابہ کی توبہ قبول ہوگئی ۔ میں نے عرض کیا : کیا میں اس کو اس کی بشارت دے دوں ؟ فرمایا : اگر تم چاہتی ہو (تو ایسا کرلو) میں اٹھ کر حجرہ کے دروازہ پر پہنچی (یہ واقعہ حکم پردہ نازل ہونے سے پہلے کا ہے) اور کہا : ابولبابہ ! تم کو بشارت ہو اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرمالی ۔ یہ سنتے ہی لوگ ابو لبابہ کو کھو لنے کے لیے درڑپڑے۔ لیکن ابولبابہ نے کہا : نہیں خدا کی قسم ! (مجھے کوئی نہ کھولے) رسول اللہ ﷺ ہی مجھے اپنے ہاتھ سے کھولیں تو خیر فجر کی نماز کے لیے حضور ﷺ پر آمد ہوئے اور ابولبابہ کی طرف سے گزرے اور ان کو آزاد کیا۔ ثعلبہ بن سعید اور اسید بن سعید اور اسد بن عبید نے کہا :(یہ خاندان نہ تو بنی قریظہ میں سے تھے نہ بنی نضیر میں سے بلکہ ہذیل میں سے تھے اوپر کسی جگہ بنی قریظہ سے ان کا رشتہ ملتا تھا) اے گر وہ بنی قریظہ ! بخدا تم خوب جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول (ﷺ) ہیں اور ان کا حلیہ اور اوصاف ہمارے پاس (ہماری کتابوں میں ) موجود ہیں جو ہمارے علماء اور بنی نضیر کے علماء بیان کرتے رہے ہیں ۔ ابن ہی ان ہمارے نزدیک بڑاسچا آدمی تھا۔ یہ حیی بن اخطب جو بنی نضیر کا اول شخص ہے اس کے حالات سے واقف ہے ۔ اس نے مرتے وقت اللہ کے رسول (ﷺ) کے صفات (حلیہ اخلاق وغیرہ) بیان کیے تھے۔ بنی قریظہ نے کہا (رح) (رح) : ہم شریعت ) توریت کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب ثعلبہ اور اسید وغیرہ نے دیکھا کہ بنی قریظہ نے ان کی بات نہیں مانی تو اسی تاریخ کو صبح ہوتے ہی گڑھی سے اتر گئے اور جاکر مسلمان ہوگئے اور اپنی جانوں مالوں اور اہل و عیال کو محفوظ کرلیا۔ عمروبن مسعودنے کہا : اے گروہ یہود ! تم نے محمد (ﷺ) سے جن باتوں پر بقسم معاہدہ کیا تھا اس سے تم واقف ہو تم نے اس معاہدہ کو توڑدیا ۔ میں تمہارا شریک نہ تھا نہ معاہدہ میں داخل تھا نہ معاہدہ شکنی میں ۔ اب اگر (مسلمان ہونے سے) تم انکار کرتے ہو تو جزیہ قبول کرلو اور یہودیت پر قائم رہو۔ بنی قریظہ نے کہا : ہم عرب کو جزیہ دینے کا بار اپنی گردنوں پر نہیں لیں گے اس سے تو قتل ہوجانا بہتر ہے۔ عمرو نے کہا : تو میں تم سے الگ ہوں۔ یہ کہہ کر اسی رات سعید کے دونوں بیٹوں کے ساتھ نکل کرچلا گیا۔ اسلامی لشکر کے محافظوں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ تھے۔ عمروبن مسعود جب یہودیوں کے پاس سے نکل کر اسلامی لشکر کے محافظوں تک پہنچا تو محمد بن مسلمہ نے کہا : کون ہے ؟ عمروبن مسعود نے کہا : عمر وبن مسعود ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا : اے اللہ ! مجھے عزت والوں کی صحبت سے محروم نہ کرنا۔ پھر (عمرو کو داخلہ کی اجازت دے دی) راستہ چھوڑدیا۔ عمروآ گیا اور رسول اللہ ﷺ کی مسجد تک پہنچ گیا اور وہیں رات گزاری ۔ صبح ہوئی تو یہ کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ اس وقت تک کہاں رہا۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : اس آدمی کو اللہ نے وفائے عہد کی وجہ سے بچالیا (محفوظ رکھا) ۔ بنوقریظہ کا محاصرہ اور ان سے حاصل ہونیوالا مال غنیمت مسلمانوں نے بنی قریظہ کا محاصرہ پچیس روز جاری رکھا یہاں تک کہ محاصرہ کی تکلیف سے وہ تنگ آگئے اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تو اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق وہ اتر آئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی مشکیں کسنے کا حکم دے دیا اور محمد بن مسلمہ کو اس خدمت پر مامور فرمایا۔ پھر ان کو ایک طرف لے گئے اور عورتوں بچوں کو قلعوں سے باہر لایا گیا اور یہ خدمت عبد اللہ بن سلام کے سپر د کی گئی ۔ پھر ان کا سامان جمع کیا گیا جس میں پند رہ سوتلواریں ۔ تین زرہیں دوہزار بھالے پند رہ سوچمڑے کی چھوٹی بڑی ڈھالیں ، بہت سا اثاث البیت بکثرت ظروف اور شراب اور منشی شربت ملا۔ شراب بہادی گئی اس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا۔ آپ کش اونٹوں کی کافی تعداد اور مویشی بکثرت دستیاب ہوئے۔ یہ سب مال جمع کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ ایک گوشہ میں جاکر بیٹھ گئے ۔ پھر قبیلہ اوس والے قریب آئے اور انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ ہمارے حلیف ہیں خزرج کے حلیف نہیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ابن ابی (سردار خزرج) کے حلیفوں یعنی بنی قینقاع کے معاملہ میں آپ نے کیا سلوک کیا ۔ خزرج کی وجہ سے تین سو غیر مسلح اور چار سوزرہ پوش لوگوں کو آپ نے معاف کردیا۔ اب ہمارے حلیف بھی اپنی گزشتہ عہد شکنی پر پشیمان ہیں ان کو ہماری وجہ سے معاف فرمادیجئے۔ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے کوئی بات نہیں کی۔ اوس والوں نے جب زیادہ اصرار کیا تو فرمایا : کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرو گے کہ یہ فیصلہ تمہارے ہی ایک آدمی کے سپرد کردیا جائے ؟ اوس والوں نے کہا : کیوں نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تو فیصلہ سعد بن معاذ کے سپرد ہے ۔ ابن عقبہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میرے صحابہ میں سے جس شخص کو جاہو (اس فیصلہ کے لیے) انتخاب کرلو۔ سفارش کرنے والوں نے حضرت سعد بن معاذ کو منتخب کرلیا۔ ایک مسلمان عورت تھی جس کو رفید ہ کہا جاتا تھا۔ وہ زخمیوں کا علاج کرتی تھی اور جس زخمی کا کوئی دیکھ بھال کرنے والا ، تیمار دارنہ ہوتا تھا بامید ثواب اس کی خدمت خود کرتی تھی ۔ اس کا خیمہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے مسجد کے اندرلگادیا گیا تا کہ قریب سے میں اس کی عیادت اور خبر گیری کرسکوں۔ چناچہ اس محاصرہ کے زمانہ میں حضرت سعد مسجد کے اندررفیدہ کے ڈیرے میں مقیم تھے۔ جب حضور ﷺ نے حضرت سعد کو بنی قریظہ کے معاملہ کا جج بنادیا توی ہیں رفیدہ کے خیمہ میں قبیلہ اوس والے حضرت سعد کے پاس آئے اور آپ کو ایک عربی گدھے پر سوار کیا گدھے پر ریشوں سے بنا ہواچارجامہ رکھا گیا تھا اور چار جامہ کے اوپر ایک کمبل ڈال دیا گیا تھا گدھے کی لگام بھی کھجور کے ریشوں کی تھی۔ حضرت سعد جسم دار آدمی تھے، قبیلہ اوس والے آپ کو اپنے گھیرے میں لے کر چلے اور راستہ میں حضرت سعد سے کہنے لگے : ابوعمر و ! اللہ کے رسول ﷺ نے آپ کے بھائیوں (یعنی حلیفوں ) کا معاملہ آپ کے سپرد کردیا تا کہ آپ ان کے معاملہ میں اچھا سلوک کریں اس لیے آپ بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں ۔ (یعنی سخت فیصلہ نہ کریں) آپ دیکھ چکے ہیں کہ ابن ابی نے اپنے حلیفوں کے ساتھ کیسا اچھا سلوک کیا تھا۔ یہ لوگ حضرت سعد سے بہت زیادہ سفارش کرتے رہے مگر آپ خاموش تھے کوئی بات زبان سے نہیں نکال رہے تھے۔ آخرجب ان لوگوں نے زیادہ در کردیا تو آپ نے فرمایا : اب سعد کے لیے وقت آگیا ہے کہ اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت گر کے براکہنے کی اس کو پرواہ نہ ہو ۔ یہ سن کر ضحاک بن خلیفہ بن ثعلبہ انصاری اور دوسرے لوگ بول اٹھے : افسوس ! قوم والوں کی تباہی آگئی ۔ سعد کے منہ سے نکلی ہوئی بات ابھی اوس والوں کو پہنچی بھی نہ تھی کہ ضحاک نے ان کو جاکر بنی قریظہ کی موت کی (یعنی فیصلہ موت کی) اطلاع دے دی۔ صیحین میں آیا ہے کہ جب حضرت سعد مسجد کے قریب پہنچے یعنی اس مسجد کے قریب پہنچے جو محاصرہ کے زمانہ میں بنی قریظہ کے احاطہ میں رسول اللہ ﷺ نے نماز کے لیے تیارکرائی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے سردار کے (استقبال ) کے لیے اٹھو۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ اپنے بہترین (سب سے اچھے) آدمی کے لینے کے لیے اٹھو۔ مہاجرین قریش کے نزدیک یہ خطاب صرف انصار کو تھا اور انصار کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ خطاب تمام مسلمانوں کو تھا ۔ امام احمد کی روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اپنے سردار کو لینے کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور اس کو اتارو۔ بنی عبد الا شہل کا بیان ہے کہ (اس حکم کی تعمیل میں) ہم نے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکردوقطاریں بنالیں۔ بوساطت حضرت جابرروایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سعد ! ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ حضرت سعد نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ ہی نے تم کو حکم دیاہی کہ اپنے حلیفوں کے معاملہ کا فیصلہ کرو اور اچھی طرح کرو۔ حضرت سعد نے (انصار یان اوس سے) کہا : کیا بنی فریظہ کے معاملہ میں تم میرے فیصلہ پر راضی ہو ؟ سب نے کہا : ہاں ، ہم تو اس وقت بھی راضی تھے جب آپ یہاں موجود نہ تھے۔ ہم نے آپ کا انتخاب کیا اور یہ امید تھی کہ آپ ہم پر احسان کریں گے جیسے دوسروں نے (یعنی ابن ابی نے ) اپنے حلیفوں کے ساتھ یعنی بنی قینقاع کے ساتھ کیا تھا۔ سعد نے کہا : کیا تم اللہ کے عہد ومیثاق کے ساتھ کہتے ہو کہ جو کچھ فیصلہ میں کروں گا تم اس کو واجب النفاذ قراردوگے۔ سب نے کہا : ہاں۔ سعد نے اس گوشہ کی جانب جہاں رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے اشارہ کرتے ہوئے کہا :(یہ فیصلہ) کیا ان پر بھی ہوگا جو یہاں ہیں ؟ عظمت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔ سعد نے کہا : تو میں فیصلہ کرتاہوں کہ ان کے بالغ مردقتل کردیئے جائیں اور عورتوں، بچوں کو باندی غلام بنالیا جائے اور ان کے مال کو بانٹ لیاجائے اور ان کے گھر مہاجرین و انصار کودے دیئے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے یہ فیصلہ اس حکم خداوندی کے مطابق کیا جو سات ٹکڑوں (یعنی سات آسمانوں) کے اوپر سے اللہ نے نازل فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ وہاں سے بروزپنج شنبہ نویاپانچ ذی الحجہ کو واپس ہوئے اور حسب الحکم رملہ بنت حارث نجاریہ کے گھر میں یہودیوں کو بند کردیا گیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ مدینہ کے بازار کی طرف تشریف لے گئے ۔ وہ بازاروہی تھا جو آج بھی ہے وہاں ایک گڑھا گڑھا کھودنے کا حکم دیا۔ چناچہ ابو الجہم عدوی کے مکان کے پاس سیاحجارالزیت تک بازار میں صحابہ گڑھا کھودنے لگے ۔ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما رہے ، پھر آپ نے بنی قریظہ کے مردوں کو بلو ایا اور اس گڑھے میں ان کی گردنیں ماری جانے لگیں ۔ کعب بن اسد سے جو یہودیوں کو دستہ دستہ (قطاردرقطار) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جارہے تھے ، یہودیوں نے کہاں : کعب ! تمہارا کیا خیال ہے محمد (ﷺ) ہمارے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں ؟ کعب نے جواب دیا : کم بختو ! تمہارے ساتھ وہ معاملہ کریں گے جو تم کو پسند نہ ہوگا ۔ بہرحال تم کو دیت لے کر چھوڑا نہیں جائے گا تم میں سے جو جائے گا وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ خدا کی قسم ! (اب تو تمہارے لیے) تلوار ہی ہے۔ میں نے تم کو پہلے جس بات کی دعوت دی تھی (یعنی عہد شکنی نہ کرنے کی) تم نے اس کو نہ مانا۔ وہ کہنے لگے : یہ وقت عتاب (برابھلا کہنے) کا نہیں ہے اگر ہم تمہاری رائے کو براسمجھ کر نظر انداز نہ کردیتے تو جو معاہدہ ہمارے اور محمد (ﷺ) کے درمیان تھا اس کو توڑ نے میں شریک نہ ہوتے۔ حیی ابن اخطب نے کہا : اب ایک دوسرے کو برابھلا کہنا چھوڑو اس وقت اس سے کچھ فائدہ نہیں مرنے پر تیار ہوجاؤ۔ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت زبیر عوام ؓ نے بنی قریظہ کو قتل کیا تھا (یعنی قتل کرنے کی خدمت ان ہی دونوں بزرگوں نے انجام دی تھی) پھر حیی بن اخطب کو لا گیا اس وقت گردن سے اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے اور فقاحی جوڑا اس نے قتل ہونے کے لیے پہن رکھا تھا لیکن پھر اس کو پھاڑدیا اور دیا انگل انگل برابرٹکڑے کردیئے تاکہ اس کو اتار کر کوئی پہن نہ سکے۔ جب رسول اللہ ﷺ کے سامنے آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : دشمن خدا ! کیا اللہ نے تجھے میرے قابو میں نہیں کردیا ؟ کہنے لگا : کیوں نہیں لیکن آپ سے دشمنی رکھنے پر میں اپنے آپ کو قابل ملامت نہیں قرار دیتا کیونکہ اپنے خیال میں میں آپ پر غالب آجانے کا خواستگار تھا لیکن اللہ کو یہ منظور نہ تھا ، اس کو یہی منظور تھا کہ مجھ پر آپ کو قابو عطاکردے ۔ میں نے چند دوڑلگائی لیکن جس کی مدد اللہ نہ کرے اس کی مدد کوئی نہیں کرتا۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا : لوگو ! اللہ کے حکم میں کوئی خرابی نہیں بنی اسرائیل پر یہ خدا کی طرف سے لکھا ہوا اور مقد ر کیا ہوا امر ہے۔ یہ کہنے کے بعد بیٹھ گیا، پھر اس کی گردن ماردی گئی۔ بنانہ عورت کا قصہ (اس روز) سوائے بنی نضیر کی ایک عورت کے اور کسی عورت کو قتل نہیں کیا گیا ۔ یہ عورت بنانہ تھی جو بنی قریظہ کے کسی مرد کے نکاح میں تھی اور زوجین میں بڑاپیار تھا ۔ جب یہودیوں کا محاصرہ سخت ہوگیا تو بنا نہ شوہر کے سامنے روئی اور کہا : تم مجھ سے جداہو جاؤگے۔ شوہرنے کہا : تو ریت کی قسم ! تو اور کسی کام نہیں آسکتی ، صرف اس چکی کے پاٹ کو اوپر سے مسلمانوں پر لڑھکادے کیونکہ اب تک ہم ان میں سے کسی کو قتل نہیں کرسکے تو عورت ہے ، اگر محمد (ﷺ) ہم پر غالب آگئے تو تجھے قتل نہیں کریں گے کیوں کہ وہ عورتوں کو قتل نہیں کرتے ہیں اور یہ مجھے گوارا نہیں کہ تجھے باندی بنالیا جائے۔ میں چاہتاہوں کہ (میرے بعد) تجھے قتل کردیا جائے ۔ بنانہ اس وقت زبیر بن باطا کے قلعہ میں تھی اس نے قلعہ کے اوپر سے چکی کا پاٹ لڑ ھکا دیا۔ مسلمان سایہ لینے کے لیے قلعہ (کی دیوار) کے نیچے بیٹھ جایا کرتے تھے مسلمانوں نے جب یہ حرکت دیکھی تو منتشر ہوگئے ۔ خلادین سوید کے اوپر چکی گرپڑی اور ان کا سر پھٹ کر ٹکڑے ہوگیا اسی سے ان کی وفات ہوگئی ۔ عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا : واللہ ! بنانہ میرے پاس موجود تھی اور خوب ہنس ہنس کر باتیں کررہی تھی اور رسول اللہ ﷺ بنی قریظہ کو تلواروں سے قتل کررہے تھے ۔ دوسری روایت میں آیا کہ بنانہ (ہنس ہنس کر) کہہ رہی تھی کہ بنی قریظہ کے سردارمارے جارہے ہیں ۔ یک دم کسی پکار نے والے نے بنا نہ کا نام لے کر آوازدی : فلاں عورت کہاں ہے ؟ بنانہ نے کہا : میں ہوں، خدا کی قسم ! میں نے کہا : کم بخت ! تجھے اس سے کیا تعلق ؟ کہنے لگی :(اب ) میں ماری جاؤں گی ۔ میں نے کہا : کیوں ؟ کہنے لگی : میں نے ایک بات کی ہے۔ چناچہ وہ چلی گئی اور خلادبن سوید کے عوض اس کی گردن ماردی گئی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی تھیں، میں بنانہ کی خوش طبعی اور ہنس کی زیادتی نہیں بھولوں گی جب کہ وہ جان چکی تھی کہ اس کو قتل کیا جائے گا (پھر بھی خوب ہنس رہی تھی) ۔ محمد بن اسحاق نے بروایت زہری بیان کیا ہے کہ دور جاہلیت میں جنگ بعاث کے دن زبیر بن باطاقرظی جس کی کنیت ابو عبدالرحمن تھی، ثابت بن قیس بن شماس کو پکڑ کرلے گیا اور (بجائے قتل کرنے یا غلام بنانے کے ) اس کی پیشانی کے بال کاٹ کر چھوڑدیا۔ جب بنی قریظہ کا یہ دن آیا تو زبیر قرظی بہت بوڑھا تھا ۔ ثابت نے اس سے کہا : ابو عبدالرحمن ! کیا تم مجھے پہچانتے ہو ؟ زبیر نے جواب دیا : مجھ جیسا آدمی آپ جیسے آدمی سے کس طرح انجام رہ سکتا ہے ؟ ثابت نے کہا : آپ نے جو احسان مجھ پر کیا تھا میں آج اس کا بد لہ دینا چاہتا ہوں۔ زبیرنے کہا : شریف لوگ بھلای کا اچھا بدلہ دیتے ہی ہیں ۔ اس کے بعد ثابت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ ! زبیر کا مجھ پر ایک احسان تھا ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا بدلہ اتاردوں۔ حضور ﷺ ! زبیر کی جان مجھے عطافرمادیں ۔ فرمایا وہ تم کو بخش دیا گیا۔ ثابت یہ اختیا رلے کر زبیر کے پاس آئے اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے تمہاری جان بخشی کردی۔ زبیر نے کہاــ: ایک بڑابوڑ ھا جس کے نہ بیوی نہ بچے زندہ کر کیا کرے گا ؟ یہ بات سن کر ثابت پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ زبیر کے بال بچوں کو معاف کردیجئے ۔ فرمایا : وہ بھی تمہیں دے دیئے گئے ۔ ثابت زبیر کے پاس پہنچے اور کہا (رح) : تمہارے اہل و عیال رسول اللہ ﷺ نے مجھے ہبہ کردیئے اور اب میں وہ تم کو دیتا ہوں ۔ زبیر نے کہا، وہ گھر والے جو حجاز میں ہوں اور ان کے پاس کچھ مال نہ ہو کس طرح جی سکتے ہیں ؟ ثابت پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے اور عرض کیا : یارسول اللہ اس کا مال بھی عطا فرمادیجئے ؟ فرمایا : وہ بھی تم کو دے دیا گیا۔ ثابت نے زبیر سے جاکر کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے تمہارامال مجھے بخش دیا، اب وہ تمہارا ہے۔ زبیر نے کہا : ثابت اس شخص کا کیا ہواجو خوبصورت چینی آئینہ تھا جس کے اندر (پورے ) قبیلہ کا چہرہ دکھائی دیتا تھا یعنی کعب بن اسد ؟ ثابت نے کہا : اس کو قتل کردیا ۔ زبیر نے کہا : اچھا اس کا کیا ہواجو شہر یوں کا بھی سردار تھا اور صحرانشین لوگوں کا بھی ، دونوں کا سر کردہ تھا، لڑائی کے موقع پر لوگوں کو سواریاں عطا کرتا اور قحط کے زمانے میں کھانا کھلا تا تھا ، یعنی حی ابن اخطب کہاں گیا ؟ ثابت نے کہا : وہ بھی مارا گیا۔ زبیر نے کہا : غزالہ بن شمول کا کیا ہو اجو حملہ کرنے کے وقت ہمارا ہر اول تھا اور حملہ سے مڑنے کے وقت ہمارے لیے حاشیہ ہوتا تھا (یعنی میمنہ اور میسر ہ ہوجاتا تھا تا کہ ہماری حفاظت ہوسکے) ثابت نے کہا : وہ بھی قتل ہوگیا ۔ زبیر نے کہا : دونوں نشست گاہوں (یعنی میمنہ اور میسرہ ہوجاتا تھا تا کہ ہماری حفاظت ہوسکے) ثابت نے کہا : وہ بھی قتل ہوگیا۔ زبیر نے کہا : دونوں نشست گاہوں یعنی بنی کعب بنی قریظہ اور بنی عمروبن قریظہ کی مجلسوں کا کیا ہوا ؟ ثابت نے کہا :(دونوں مجلسوں کے) لوگ چلے گئے اور مارے گئے ۔ زبیر کہنے لگا : ثابت ! میں نے جو بھلائی تیرے ساتھ کی تھی اس کا واسطہ دے کر تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھے بھی انہی لوگوں کے پاس پہنچا دے ۔ خدا کی قسم ! ان کے بعد زندگی کا کوئی مزہ نہیں جس گھر میں وہ لوگ فرو کش اور مقیم تھے اس گھر میں جاکر اس کے بعد ہمیشہ رہوں ، مجھے اس کی ضرورت نہیں لیکن ثابت میرے بعد میرے اہل و عیال کا لحاظ رکھنا ۔ اپنے ساتھی سے درخواست کرنا کہ وہ ان کو آزادکردی اور ان کا مال ان کودے دے۔ چناچہ ثابت کی درخواست پر رسول اللہ ﷺ نے زبیر کے بیوی بچوں کو اور باستثناء اسلحہ باقی مال کو واپس کردیا۔ زبیر نے کہا : ثابت ! میراجو حق تجھ پر ہے، تجھے اس کا واسطہ ! مجھے (جلد) ان دوستوں سے ملادے ۔ مجھے سے اب اتنی دیر بھی صبر نہیں ہوسکتا جتنی دیر بھرے ہوئے ڈول کو حوض میں الٹ کر دوبارہ ڈول کو کنویں میں ڈالنے میں ہوتی ہے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ثابت نے لے جاکرزبیر کی گردن ماردی ۔ محمد بن عمر و کا بیان ہے کہ ثابت نے کہا : زبیر ! مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا میں تجھے قتل کردوں ۔ زبیر نے کہا : مجھے پرواہ نہیں کہ میراقاتل کون ہو (تیرے ہاتھ سے ماراجاؤں یا کسی اور کے ہاتھ سے میرے لیے دونوں برابر ہیں) آخرحضرت زبیر بن عوام نے اس کو قتل کردیا۔ حضرت ابوبکر صدیق کو جب زبیر قرظی کے اس قول کی اطلاع ملی کہ میں اپنے دوستوں سے ملوں گا تو آپ نے فرمایا : جہنم کی آگ میں وہ اپنے دوستوں سے ہمیشہ ہمیشہ ملاقات کرتا رہے گا۔ اس کے بعد بنی قریظہ کا مال متاع اور عورتوں کی تقسیم کی گئی ۔ یہ سب سے پہلا مال فئی تھا جس میں (بعض لوگوں کو) دوہراحصہ ملا۔ مسلمانوں کی تعدادتین ہزار تھی اور ان میں 36 گھوڑے (سوار) تھے۔ کل مال کے تین ہزار بہتر (3072) حصے کیے گئے ، ہر آدمی کا ایک حصہ اور گھوڑے کا دوہراحصہ۔ رسول اللہ ﷺ کے تین گھوڑے تھے لیکن حصہ صرف ایک ہی گھوڑے کا مقرر کیا گیا۔ امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کا یہی قول ہے اور اسی واقعہ سے ثا بت ہوتا ہے کہ ایک سوار کے گھوڑے خواہ ایک سے زائد ہوں لیکن حصہ صرف ایک ہی گھوڑے کا لگایا جائے گا۔ صاحبین کے نزدیک ایک سے زائد اگر کسی سوار کے گھوڑے ہوں تو صرف دوگھوڑوں کا حصہ لگایاجائے گا دو سے زائد گھوڑوں کے حصے لگاناب اتفاق آئمہ ممنوع ہے۔ سورة الا نفال میں اس کی بحث گزرچکی ہے۔ ریحانہ بنت عمروکے اسلام لانے کا واقعہ اور آپ کی مملو کہ رہنے پر اصرار بنی نضیر کے خاندان کی ایک عورت تھی جس کا نام تھا ریحانہ بنت زیدبن عمروبن حذافہ یہ بنی عمروبن قریظہ میں بیاہی گئی تھی۔ عورت تھی خوبصورت رسول اللہ ﷺ کو بھاگئی ۔ آپ نے اس کے سامنے اسلام پیش کیا لیکن اس نے مسلمان ہونے سے انکار کردیا۔ حضور ﷺ اس سے کنارہ کش ہوگئے لیکن دل میں اس کا خیال رہا۔ اس لیے ابن سعیہ کو طلب فرماکران سے اس کا تذکرہ کیا۔ ابن سعیہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! (ﷺ) آپ پر میرے ماں باپ قربان ، وہ مسلمان ہوجائے گی۔ ابن سعیہ یہاں سے نکل کر ریحانہ کے پاس پہنچے اور اس سے کہنے لگے : اب اپنی قوم کی طلب چھوڑ دو ۔ تم نے دیکھ لیا کہ حیی ابن اخطب کیسی مصیبت ان پر لے آیا۔ اب مسلمان ہوجاؤ، رسول اللہ ﷺ تم کو اپنے لیے پسند فرمائیں گے۔ ریحانہ نے ابن سعیہ کی بات مان لی ۔ ادھر رسول اللہ ﷺ صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے ، اچانک حضور ﷺ کو جوتوں کی آواز سنائی دی ۔ فرمایا : یہ تو ابن سعیہ کے جوتوں کی آواز ہے مجھے ریحانہ کے مسلمان ہونے کی بشارت دینے آرہا ہے۔ چناچہ ابن سعیہ آگئے اور عرض کیا : یارسول اللہ ! (ﷺ) ریحانہ مسلمان ہوگئی ۔ یہ بات سن کر حضور ﷺ خوش ہوگئے ۔ ریحانہ حضو ﷺ کی وفات تک آپ کے پاس رہی اور مملوک ہونے کی حالت میں ہی رہی۔ رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ ریحانہ سے نکاح کرلیں اور اس کو پردہ میں رکھیں لیکن ریحانہ نے کہا : یارسول اللہ ! (ﷺ) مجھے یوں ہی اپنی ملکیت میں رہنے دیجئے (آزادنہ کیجئے ) میرے اور آپ کے لیے یہی بات آسان ہے (نہ اس میں آپ کو کوئی تکلیف ہے نہ مجھے) اس لیے حضور ﷺ نے ان کو باندی (ہی کی صورت میں ) رہنے دیا۔ جب بنی قریظہ کا قصہ ختم ہوگیا تو حضرت سعد بن معاذکا زخم بھی کھل گیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سب سعد کے پاس (ان کودیکھنے) گئے۔ (عمر رونے لگے) اس وقت میں اپنے حجرہ میں تھی ۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ ) کی جان ہے ! میں نے عمر کے رونے کی آواز ، ابوبکر کے رونے کی آواز سے الگ پہچان لی اور یہ لوگ ایسے ہی تھے جیسا اللہ نے فرمایا ہے :، رحماء بینھم ، بنو قریظہ کی فتح کا واقعہ ذی قعدہ پانچ ہجری میں ہوا۔ سلیمان بن صرد سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناجب وہ غزوہ احزاب سے فارغ ہوئے۔ اب ہم ان کے ساتھ جنگ کریں گے اور وہ ہمارے ساتھ نہیں لڑیں گے۔ ہم ان کی طرف چلیں گے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے اللہ ان کے لشکر کو عزت دے اور اس کے بندے کی مدد فرمائے اور احزاب والوں پر اکیلے غالب آجائے ان پر اکیلے کوئی چیز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بنوقریظہ کے قصہ میں ارشاد فرمایا، وانزل الذین ظاھروھم من اھل الکتاب من صیا صیھم وقذف فی قلوبھم الرعب فریقا تقتلون، وہ لوگ جو تقریبا سات ہزار تھے۔ ، وتاسرون فریقا، اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ سات ہزار پانچ سو تھے اور بعض نے سات ہزارہی کہا ہے۔
Top