Tafseer-e-Baghwi - Al-Faatiha : 53
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُئْوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ١ؕ وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا
تُرْجِيْ : دور رکھیں مَنْ تَشَآءُ : جس کو آپ چاہیں مِنْهُنَّ : ان میں سے وَ تُئْوِيْٓ : اور پاس رکھیں اِلَيْكَ : اپنے پاس مَنْ تَشَآءُ ۭ : جسے آپ چاہیں وَمَنِ : اور جس کو ابْتَغَيْتَ : آپ طلب کریں مِمَّنْ : ان میں سے جو عَزَلْتَ : دور کردیا تھا آپ نے فَلَا جُنَاحَ : تو کوئی تنگی نہیں عَلَيْكَ ۭ : آپ پر ذٰلِكَ اَدْنٰٓى : یہ زیادہ قریب ہے اَنْ تَقَرَّ : کہ ٹھنڈی رہیں اَعْيُنُهُنَّ : ان کی آنکھیں وَلَا يَحْزَنَّ : اور وہ آزردہ نہ ہوں وَيَرْضَيْنَ : اور وہ راضی رہیں بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ : اس پر جو آپ نے انہیں دیں كُلُّهُنَّ ۭ : وہ سب کی سب وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَلِيْمًا : بردبار
(اور تم کو بھی یہ اختیار ہے کہ) جس بیوی کو چاہو علیحدہ رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو اور جس کو تم نے علیحدہ کردیا ہو اگر اس کو پھر اپنے پاس طلب کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں یہ (اجازت) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمناک نہ ہوں اور جو کچھ تم ان کو دو اسے لے کر سب خوش رہیں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا اسے جانتا ہے اور خدا جاننے والا اور بردبار ہے
51، ترجی ، تم اس کو مؤ خر کرو۔ ، من تشاء منھن وتووی ، اور تمہاری طرف اس کو ملائے۔ ترجی من تشاء کی تفسیر ، الیک من تشاء ، اس آیت میں اہل تفسیر کا اختلاف ہے۔ سب زیادہ مشہور قول یہ ہے کہ اس آیت کا نزول باری تقسیم کرنے کے سلسلہ میں ہوا۔ پہلے عورتوں میں برابری کرنا رسول اللہ ﷺ پر واجب تھا ، اس آیت کے نزول کے بعد برابری رکھنے کا حکم ساقط کردیا گیا اور عورتوں کے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کو پورا اختیار دے دیا گیا۔ ابو زید اور ابن زید نے کہا اس آیت کا نزول اس وقت ہواجب بعض امہات المؤمنین نے رسول اللہ ﷺ کے سلسلہ میں رشک کیا اور بعض نے زیادہ مصارف طلب کیے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک سب سے ترک تعلق کرلیا تھا یہاں تک کہ آیت تخییر نازل ہوئی اور اللہ نے حکم دے دیا کہ عورتوں کو اختیار دے دو کہ وہ دنیا کو پسند کرلیں یا آخرت کو جو دنیا کو پسند کریں ان کے راستہ میں رکاوٹ نہ پیداکرو (ان کو آزاد کردو) اور جوا للہ اور اس کے رسول ﷺ کو اختیار کریں ان کو اپنے پاس رکھو لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ کے رسول کو اختیار ہوگا کہ ان میں سے جس کو چاہیں گے رسول اللہ ﷺ اپنے پاس رکھیں گے اور جس کو چاہیں گے دور رکھیں گے ۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ جس کی باری چاہیں مقرر کریں ، چاہیں نہ کریں اور مصارف و باری کی تقسیم میں جس کو چاہیں ترجیح دیں ، یہ سارے اختیا رات رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہوں گے۔ یہ خصوصیت صرف رسول اللہ ﷺ کو عطاکی گئی تھی۔ امہات المؤمنین نے یہ تمام شرائط مان لیں اور ان شرائط پر آپ کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کیا کسی بیوی کو باری کی تقسیم سے خارج کردیا تھا یا نہیں ؟ اس میں روایات کا اختلاف ہے۔ بعض کا قول ہے کہ باوجود کامل اختیار مل جانے کے رسول اللہ ﷺ نے سوائے حضرت سودہ کے اور کسی بیوی کو باری کی تقسیم سے خارج نہیں کیا۔ حضرت سودہ خو اپنے حقوق سے دستبر دار ہوگئیں اور انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کودے دیا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اختیار ملنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بعض بیویوں کو باری کی تقسیم سے خارج کردیا تھا۔ ابن جریرنے بوساطت منصور ابورزین کی روایت بیان کی ہے کہ جب آیت تخییر نازل ہوئی تو امہاتالمؤ منین کو اندیشہ ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ ہم کو طلاق دے دیں لیے سب نے کہا کہ یارسول اللہ ! (ﷺ) آپ اپنی ذات میں اور مال میں جتنا چاہیں ہم کو دیں اور ہم کو ہمارے حال پر رہنے دیں (طلاق نہ دیں) اس پر آیت ، ترجی من تشاء الخ، نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے بعض عورتوں کو پیچھے ڈال دیا اور بعض کو اپنے قرب میں رکھا جن کو قریب رکھا، ان میں عائشہ ، حفصہ اور ام حبیبہ ، سودہ ، صفیہ ، میمونہ جویریہ ؓ ۔ ان کے لیے جب آپ چاہتے تھے باری تقسیم کردیتے ہے۔ مجاہد نے کہا، ترجی من تشاء منھن ، کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس بیوی سے بغیر طلاق دیئے کنارہ کش رہنا چاہیں کنارہ کش رہیں اور کنارہ کش ہونے کے بعد اگر پھر اس کو بغیر تجد ید نکاح کے اپنے پاس واپس لانا چاہیں تو لاسکتے ہیں۔ بعض نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اپنی امت کی جس عورت سے آپ نکاح کرنا چاہیں ، کرسکتے ہیں اور نکاح نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں ۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ جب کسی عورت کو اپنا پیام بھیجتے تھے تو جب تک خود ہی اپنے پیام سے دستبر دار نہ ہوجائیں ، کسی دوسرے شخص کے لیے اس عورت کو پیام بھیجنا جائزنہ تھا۔ بعض نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ جو مؤ من عورتیں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردیں آپ ان میں سے جس کو چاہیں قبول کرلیں اور اپنے پاس جگہ دیں اور جس کو قبول نہ کرنا چاہیں رد کردیں ۔ ہشام نے اپنے باپ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جن عورتوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہبہ کردیا تھا، ان میں سے خولہ بنت حکیم بھی تھیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : کیا عورت کو شرم نہیں آتی کہ مرد کے لیے اپنے کو ہبہ کرتی ہے ؟ پھر جب آیت ، توی الیک من تشاء منھن الخ، نازل ہوئی تو انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا رب آپ خواہش جلد پوری کردیتا ہے۔ ، ومن ابتغیت ممن عزلت فلاجناح علیک ، اور جن سے آپ کنارہ کش ہوگئے ، اگر ان میں سے پھر کسی کو طلب کرلیں تب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یعنی جن بیویوں کو (بغیر طلاق کے) آپ نے اپنے سے دور کردیا تھا، اگر ان میں سے کسی کو پھر اپنے پاس رکھنا چاہیں تو کوئی گناہ نہیں۔ ، ذلک ادنی ان تقر اعینھن ولا یحزن ویرضین بما اتیتھن کلھن ، اس میں زیادہ تو قع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ آزدہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی آپ ان کودے دیں گے اس پر سب کی سب راضی رہیں گی۔ ، ذلک، یعنی یہ اختیار جو آپ کو دیا گیا ہے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈی رکھنے اور آزردہ خاطرنہ ہونے اور سب کے راضی رہنے سے بہت زیادہ قریب (تعلق رکھنے والا) ہے کیونکہ اس میں سب برابر ہیں (سب کا اختیار آپ کو ہے کوئی خود مختار نہیں رہی) پھر اگر آپ ان میں سے کسی کو اپنے پاس بلالیں گے تو وہ آپ کے اس فعل کو آپ کی مہربانی سمجھے گی اور جس سے کنارہ کش ہوجائیں گے تو وہ اس کو حکم خدا سمجھے گی بلکہ اس میں بھی آپ کی مہربانی سمجھے گی کہ آپ نے اس کو صرف اپنے قرب سے ہٹا دیا نکاح سے تو خارج نہیں کیا حالانکہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں تھی (طلاق دے سکتے تھے) ۔ ، اللہ یعلم مافی قلوبکم ، اور اللہ کو تم لوگوں کے دلوں کی باتیں معلوم ہیں ۔ اس میں اس بی بی کے لیے وعید ہے جو رسول اللہ ﷺ کی منشاء پر راضی نہ ہو۔ بعض اہل علم نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ تمہارے دلوں کے اندر جو بعض عورتوں کی طرف جھکاؤاور میلان ہوتا ہے اللہ اس سے واقف ہے اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آسانی کیلئے یہ اختیاران کو دے دیا ہے۔
Top