Tafseer-e-Baghwi - Faatir : 10
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا١ؕ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ مَكْرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ یَبُوْرُ
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعِزَّةَ : عزت فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْعِزَّةُ : عزت جَمِيْعًا ۭ : تمام تر اِلَيْهِ : اس کی طرف يَصْعَدُ : چڑھتا ہے الْكَلِمُ الطَّيِّبُ : کلام پاکیزہ وَالْعَمَلُ : اور عمل الصَّالِحُ : اچھا يَرْفَعُهٗ ۭ : وہ اس کو بلند کرتا ہے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَمْكُرُوْنَ : تدبیریں کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : بری لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ : عذاب سخت وَمَكْرُ : اور تدبیر اُولٰٓئِكَ : ان لوگوں هُوَ يَبُوْرُ : وہ اکارت جائے گی
جو شخص عزت کا طلبگار ہے تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں اور جو لوگ برے برے مکر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر نابود ہوجائے گا
10، من کان یرید العزۃ فلللہ العزہ جمیعا، فراء نے آیت کا مطلب اس طرح بیان کیا جو شخص جاننا چاہتا ہے کہ عزت کے لیے ہے وہ وہ سمجھ لے کہ تمام ترعزت اللہ کے لیے ہے۔ بظاہر آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اپنے لیے عزت کا خواستگار ہے تو اللہ کی بارگاہ سے ہی اس کو عزت طلب کرنی چاہیے ، اسی کی فرمانبرداری کرکے عزت حاصل کرے کیونکہ ساری عزت کا خالق ومالک اللہ ہی ہے جس کو چاہے عطار کے۔ کافر، بتوں کی پوجاکر کے عزت کے خواستگار تھے، اللہ نے کافروں کے متعلق فرمایا : ، واتخذو امن دون اللہ الھۃ لیکونوالھم عزاکلا اور منافق ، کافروں کی نظر میں معززبننا چاہتے تھے اللہ نے منافقوں کے متعلق فرمایا :، ایبتغون عند ھم العزۃ فان العزۃ للہ جمیعا، آیت مذکورہ میں دونوں کے خیال کی تردید کردی گئی ۔ آگے فرمایا کہ عزت کے حصول کا ذریعہ صرف توحید اور نیک ہے۔ ، الیہ یصعد الکلم الطیب، اللہ کی طرف چڑھتے ہیں پاک کلمات ۔ پاک کلمات سے مراد ہیں ، سبحان اللہ والحمد للہ واللہ اکبر ولاالہ الا اللہ و تبارک اللہ، وغیرہ۔ چڑھنے سے مجازامراد ہے قبول ہونا ۔ قتادہ کا یہی قول روایت میں آیا ہے ، یا کلمات کے چڑھنے سے مراد ہے ان فرشتوں کا عرش کی طرف چڑھنا جوان پاک کلمات کو لکھ کرلیجاتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ، الیہ یصعدالکلم الطیب ، سے مرا د ذکراللہ ہے۔ قتادہ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کلمہ طیبہ کو پاک کرلے گا ۔ حسن اور قتادہ کا بیان ہے کہ ، الکلم الطیب، سے مراد ذکر اللہ ہے اور، والعملالصالح یرفعہ، سے مراد فرائض کی ادائیگی ہے جو شخص اللہ کا ذکر کرے لیکن فرائض ادانہ کرے تو اس کے ذکر کو اس پر لوٹا یا جاتا ہے ۔ ایمان صرف ارزو کرنے سے نہیں ملتا اور نہ ہی جلوہ پاشی کا نام ہے بلکہ ایمان وہ ہے جو دل میں جماہوا ہو اور اعمال صالحہ اس کی تصدیق کررہے ہوں جس کا قول تو اچھا ہے اور عمل صالح نہ ہو، اللہ اس کا قول اس کے منہ پردے مارتا ہے اور جس کا قول بھی اچھا ہو اور عمل بھی صالح ہو اللہ اس کو قبول فرمالیتا ہے۔ اس کا قول عمل کو مقبول بنالیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ، حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ بغیر عمل کے اللہ قول کو قبول نہیں کرتا اور وعمل کے ساتھ خلوص نیت بھی ضروری ہے۔ صرف قول وعمل بھی بغیر نیت کے مقبول نہیں ۔ سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ عمل صالح خالص کو کہتے ہیں ۔ یعنی جن اعمال میں اخلاص ہو، خواہ ان کا تعلق اقوال میں سے ہو یا افعال میں سے، اس پر دلیل اللہ عزوجل کا فرمان، فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا، مشرک اور ریاء سے بچے رہے۔ ، والذین یمکرون السیئات ، کلبی نے بیان کیا کہ وہ جو برے اعمال کرتے ہیں ۔ مقاتل نے کہا کہ وہ شرک کرتے ہیں ۔ ابو العالیہ نے کہا بری تدبیروں سے مراد ہیں قریش کی وہ خفیہ تدبیریں جو دارالند وہ میں بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے متعلق انہوں نے کی تھیں، انہی تدبیروں کے متعلق سورة انفال میں آیا ہے :، واذیمکربک الذین کفروالیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک، کلبی نے، یمکرون السیئات، کا ترجمہ کیا ہے ، برائیاں کرتے ہیں ۔ مجاہد اور شہربن حوشب کے نزدیک ریاکارلوگ مراد ہیں۔ ، لھم عذاب شدید ومکراو اولئک ھویبور، وہ یعنی اللہ ان کو نا بود کردے گا۔
Top