Tafseer-e-Baghwi - Yaseen : 13
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ١ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (قصہ) اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘ : بستی والے اِذْ : جب جَآءَهَا : ان کے پاس آئے الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور ان سے گاؤں والوں کا قصہ بیان کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے
اصحاب القریۃ اور مرسلون سے کیا مرادہے 13، واضرب لھم مثلا اصحاب القریۃ، یعنی کفار مکہ سے بطور مثال ایک قصہ بیان کیجئے جو بستی انطاکیہ کا ہے۔ ، اذجاء ھا المرسلون، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو حواری اپنے قاصد انطاکیہ بستی میں بھیجے (یہ علماء نے لکھا ہے) جب یہ دونوں شہر کے قریب پہنچے تو ایک بوڑھا آدمی بکریاں چراتا ہواملا۔ اس کا نام حبیب نجار تھا۔ دونوں نے اس کو سلام کیا ۔ بوڑھے نے کہا تم کون ہو ؟ قاصدوں نے کہا کہ ہم عیسیٰ (علیہ السلام) کے قاصد ہیں ، وہ تمہیں بتوں کی پاجا چھوڑ کر رحمن کی عبادت کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ بوڑھے نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی نشانی ہے، قاصدوں نے کہا ہاں ہم اللہ کے حکم سے بیمارکوتندرست اور مادرزادنا بینا اور کوڑھی کو اچھا کردیتے ہیں۔ بوڑھے نے کہا کہ میرابیٹادوسال سے بیما رہے۔ قاصدوں نے کہا چلو ہم کو وہاں لے چلو، ہم بھی اس کو دیکھیں ۔ بوڑھا ان دونوں کو لے کر اپنے گھرپہنچا، قاصدوں نے جو نہی اس کے بیٹے پر ہاتھ پھیراوہ اللہ کے حکم سے تندرست ہوکر اٹھ کھڑا ہوا، یہ خبر شہر میں مشہور ہوگئی اور ان کے ہاتھوں سے اللہ نے بہت سارے مریضوں کو شفاء عطا فرمادی۔ انطاکیہ بستی والوں کا تفصیلی واقعہ انطاکیہ والوں کا ایک بادشاہ تھا۔ وہب نے فرمایا کہ اس کا نام انطفیص ہے یہ رومی بادشاہ تھا اور بتوں کی پوجا کرتا تھا ۔ وہ کہنے لگے اور یہ خبر بادشاہ کو پہنچی ، اس نے ان دونوں کو بلایا اور کہاتم دونوں کون ہو ؟ وہ کہنے لگے ہم عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجے ہوئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کس غرض سے آئے ہو ؟ ان دونوں نے کہا کہ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں، ایسے معبود کو چھوڑ کر جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے، ان کو چھوڑکرای سے معبود کی طرف جو سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں سے کہا کیا تمہارا کوئی خدا ہمارے خداؤں کے علا وہ ہے ۔ قاصدوں نے کہا جی ہاں ، جس نے تم کو اور تمہارے معبودوں کو پیدا کیا ہے۔ بادشاہ نے کہا اٹھ جاؤمیں تمہارے بارے میں سوچوں گا، لوگوں نے ان سے پوچھا اور بازار میں ان کو پکڑکرمارا۔ وہب فرماتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انطاکیہ بھیجا ، وہ دونوں انطاکیہ پہنچے مگر بادشاہ تک رسائی نہیں ہوئی اور ایک لمبی مدت تک ان کو وہاں ٹھہرناپڑا۔ ایک روز بادشاہ برآمد ہواتو ان دونوں نے اللہ اکبر کہا اور اللہ کا ذکر کیا۔ بادشاہ نے غضبنا ک ہوکر دونوں قاصدوں کو قید کردینے اور سوسوکوڑے مارنے کا حکم دیا ۔ کہا گیا کہ جب ان دونوں قاصدوں کی تکذیب کی گئی اور ان کو سزادی گئی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کے سردار شمعون صفاکوان کے پیچھے ان کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ شمعون بستی میں حلیہ بدل کر پہنچے اور بادشاد کے مصاحبوں سے ربط پیدا کیا ۔ جب بادشاہ کے مصاحب ان سے مانوس ہوگئے تو انہوں نے اس کی اطلاع بادشاہ تک پہنچا دی ۔ بادشاہ نے ان کو بلایا۔ شمعون ان کے پاس آگئے ، بادشاہ نے ان کی صحبت کو پسند کرلیا اور مانوس ہوگیا اور ان کی عزت کی کچھ مدت کے بعد شمعون نے ایک روز بادشاہ سے کہا مجھے خبرملی ہے کہ آپ نے دوآمیوں کو قید خانہ میں بندکررکھا ہے اور جب انہوں نے آپ کو آپ کے مذہب کے خلاف دعوت دی تو آپ نے ان کو سزادی اور قیدکروادیا۔ کیا آپ نے ان سے کچھ گفتگو بھی کی تھی اور ان کی بات بھی سنی تھی۔ بادشاہ نے کہا کہ مجھے اتنا غصہ آیا کہ میں ان سے کوئی بات نہ کرسکا ۔ شمعون نے کہا اگر بادشاہ مناسب سمجھے تو ان کو طلب فرماکر دریافت کرے کہ وہ کہتے کیا ہیں، شمعون کے مشورہ کے مطابق بادشاہ نے دونوں حواریوں کو طلب کیا۔ شمعون نے ان دونوں سے دریافت کیا کہ تم کو یہاں کس نے بھیجا ہے ؟ قاصدوں نے جواب دیا اللہ نے ، جس نے ہرچیز کو پیدا کیا ہے جیسی اس کی مشیت ہوتی ہے حکم دیتا ہے ۔ شمعون نے کہا تم دونوں کے پاس کیا دلیل ہے ؟ قاصدوں نے کہا جو آپ طلب کریں، یہ سنتے ہی بادشاہ نے ایک لڑکے کو بلوایا جس کی دونوں آنکھوں کے نشان بھی مٹے ہوئے تھے، دونوں آنکھوں کی جگہ سپاٹ تھی جیسے دونوں پیشانی ، دونوں حواریوں نے اپنے رب سے دعا کرنی شروع کردی اور برابر کرتے رہے۔ آخردونوں آنکھوں کی جگہ بھٹ گئی دونوں نے مٹی کے دوغلے لے کر آنکھوں کے شگوفوں میں رکھ دیئے ، فورادونوں غلے آنکھوں کے ڈھیلوں کی طرح ہوگئے اور دونوں سے دکھائی دیاجانے لگا ۔ بادشاہ کو بڑاتعجب ہوا۔ شمعون نے بادشاہ سے کہا اگر آپ اپنے معبود سے درخواست کریں اور وہ بھی ایسا ہی کردے تو آپ کو برتری حاصل ہوجائے گی۔ بادشاہ نے کہا تم سے کچھ چھپی بات نہیں حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معبود جس کی ہم پوجا کرتے ہیں نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ ضررپہنچا تا ہے نہ نفع دے سکتا ہے۔ شمعون کا قاعدہ یہ تھا کہ بادشاہ جب بتوں کی پوجا کرنے جاتا تو شمعون کثرت سے نماز پڑھتا اور اللہ کے سامنے گڑگڑاتا تھا۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے مذہب پر ہے۔ اس کے بعد بادشاہ نے دونوں حواریوں کہا کہ اگر تمہاراخدا جس کی تم پوجاکر تے ہومردہ کو زندہ کرسکے تو ہم اس کو مان لیس گے۔ حواریوں نے کہا ہمارا معبود ہرچیز کی قدرت رکھتا ہے۔ بادشاہ نے کہا ایک زمیند ار کا بچہ ساتھ دن ہوگئے ہیں مرگیا ہے اس کا باپ موجود نہیں تھا ہم نے اس کے باپ کے آنے تک دفن کرنے سے روک دیا ہے ۔ حسب الحکم لوگ میت کو لے آئے میت بہت بگڑچ کی تھی اور اس کی شکل ڈراؤنی ہوچکی تھی ، دونوں حواری اللہ سے اعلانیہ دعا کرنے لگے اور شمعون چپکے چپکے خدا سے دعامانگتارہا۔ کچھ دیر کے بعد مردہ اٹھ بیٹھا اور کہا میں سات روز ہوئے شرک کی حالت میں مرا تھا ، مجھے آگ کی سات وادیوں میں لیجایا گیا میں تم کو اس شرک سے ڈراتا ہوں جس میں تم مبتلاہو، اللہ پر ایمان لے آؤ، پھر اس نے کہا آسمان کے دروازے کھلتے مجھے دکھائی دیئے اور میں نے ایک خوبصورت جوان کو دیکھا جوان تینوں کی سفارش کررہا تھا۔ بادشاہ نے کہا تین کون، اس نے کہا شمعون اور یہ دونوں ، یہ بادشاہ کو سن کر اور دیکھ کر بڑتعجب ہوا۔ شمعون نے جب دیکھ لیا کہ اس کی بات بادشاہ کرچکی ہے تو اس کو اسلام کی دعوت دی ۔ بادشاہ اور اس کی کثیر قوم اسلام لے آئی اور بعض لوگوں نے نہیں مانا۔ بعض حضرات نے کہا کہ بادشاہ کی بیٹی مرچکی تھی اور اس کود فن بھی کرلیا تھا تو شمعون نے بادشاہ سے کہا کہ آپ ان دونوں شخصوں سے سوال کریں کہ وہ آپ کی (رح) لڑکی کو زندہ کردیں ؟ بادشاہ نے دونوں حواریوں سے اپنی لڑکی کو زندہ کردینے کی درخواست کی فورا دونوں نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے اور اللہ سے دعا کی شمعون بھی دعاء میں ان کے ساتھ شریک تھے مگر چپکے چپکے دعاکر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اللہ نے اس عورت کو زندہ کردیا ، قبر پھٹی اور عورت باہر نکل آئی اور کہا خوب جان لو کہ یہ دونوں سچے ہیں اور یہ میراخیال ہے تم نہیں مانوگے ۔ پھر اس نے دونوں حواریوں سے درخواست کی کہ وہ اس کو اس کی جگہ واپس کردیں، پھر اس نے اپنے سرپر کچھ مٹی ڈالی اور قبر میں لوٹ گئی۔ ابن اسحاق نے کعب اور وہب کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ بادشاہ ایمان نہیں لایا اور قوم کی اتفاق رائے سے اس نے قاصدوں کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ۔ یہ خبر حبیب کو مل گئی ۔ حبیب اس وقت شہر کے آخری دروازہ پر تھا ۔ فوراوہ دوڑکرشہر والوں کے پاس پہنچا ان کو نصیحت کی اور قاصدوں کا کہا ماننے کی دعوت دی۔
Top