Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 102
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ١۫ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْ١۪ وَ لْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ١ۚ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
وَاِذَا : اور جب كُنْتَ : آپ ہوں فِيْهِمْ : ان میں فَاَقَمْتَ : پھر قائم کریں لَھُمُ : ان کے لیے الصَّلٰوةَ : نماز فَلْتَقُمْ : تو چاہیے کہ کھڑی ہو طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْھُمْ : ان میں سے مَّعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْٓا : اور چاہیے کہ وہ لے لیں اَسْلِحَتَھُمْ : اپنے ہتھیار فَاِذَا : پھر جب سَجَدُوْا : وہ سجدہ کرلیں فَلْيَكُوْنُوْا : تو ہوجائیں گے مِنْ وَّرَآئِكُمْ : تمہارے پیچھے وَلْتَاْتِ : اور چاہیے کہ آئے طَآئِفَةٌ : جماعت اُخْرٰى : دوسری لَمْ يُصَلُّوْا : نماز نہیں پڑھی فَلْيُصَلُّوْا : پس وہ نماز پڑھیں مَعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْا : اور چاہیے کہ لیں حِذْرَھُمْ : اپنا بچاؤ وَاَسْلِحَتَھُمْ : اور اپنا اسلحہ وَدَّ : چاہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ تَغْفُلُوْنَ : کہں تم غافل ہو عَنْ : سے اَسْلِحَتِكُمْ : اپنے ہتھیار (جمع) وَ : اور اَمْتِعَتِكُمْ : اپنے سامان فَيَمِيْلُوْنَ : تو وہ جھک پڑیں (حملہ کریں) عَلَيْكُمْ : تم پر مَّيْلَةً : جھکنا وَّاحِدَةً : ایک بار (یکبارگی) وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر كَانَ : ہو بِكُمْ : تمہیں اَذًى : تکلیف مِّنْ مَّطَرٍ : بارش سے اَوْ كُنْتُمْ : یا تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَنْ تَضَعُوْٓا : کہ اتار رکھو اَسْلِحَتَكُمْ : اپنا اسلحہ وَخُذُوْا : اور لے لو حِذْرَكُمْ : اپنا بچاؤ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اَعَدَّ : تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
اور (اے پیغمبر ﷺ جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کر چکیں تو پرے ہوجائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہوجاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا خدا نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
(خوف کی نماز کا بیان) (تفسیر) 102۔: (آیت)” واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ “۔ کلبی (رح) نے ابی صالح (رح) کے حوالے سے اور وہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ مشرکین نے جب رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب کو ظہر کی نماز میں دیکھا کہ وہ سب اکٹھے نماز پڑھ رہے ہیں ، ان کو ندامت ہوئی کہ ہم نے ان پر یکبارگی حملہ کیوں نہیں کیا ، بعض نے بعض سے کہا کہ چھوڑئیے اس کے بعد ایک نماز آرہی ہے جو ان کو اپنے آباء اور اپنے بیٹوں سے بھی پیاری ہے اور وہ عصر کی نماز ہے ، جب وہ اس نماز میں کھڑے ہوئے ہوں گے تو ہم ان پر حملہ کردیں گے اور ان کو قتل کردیں گے ، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ خوف کی نماز ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ “۔ پھر صلوۃ خوف کی تعلیم دی کہ جب دشمن میدان جنگ میں برسرپیکار ہو اور وہ قبلہ کی سمت نہ ہو تو امام قوم کی دو جماعتیں بنائے ۔ ایک گروہ دشمن کے سامنے کھڑا ہو اور دوسرا گروہ نماز پڑھے اور امام کے لیے مشروع ہے کہ وہ دو جماعتیں نماز میں بنائے ، ایک گروہ کو وہ ایک رکعت پڑھا لے تو کھڑا ہوجائے اور اسی طرح کھڑا رہے ، یہاں تک کہ وہ نماز پوری کرلیں، پھر وہ چلے جائیں اور دوسرا گروہ آکر امام کے پیچھے ایک رکعت پڑھے ، ان کے ساتھ سلام پھیرے ، یہ سہل بن ابی حثمہ ؓ کے نزدیک ہے کہ آپ ﷺ نے ذات الرقاع میں اسی طرح نماز پڑھائی ، یہی قول امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) ، امام احمد (رح) ، امام اسحاق (رح) ، اللہ کے نزدیک ہے ۔ ـصالح بن خوات سے مروی ہے ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ذات الرقاع کے دن صلوۃ خوف پڑھی ، اس کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ایک جماعت کو اپنے پیچھے کھڑا کیا اور دوسری جماعت کو دشمن کے روبرو پھر اپنے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر وہ برابر کھڑے رہے اور مقتدیوں نے اپنی بقیہ نماز مکمل کی پھر وہ چلے گئے اور دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے اور دوسری جماعت نے امام کے ساتھ بقیہ رکعت پڑھی ، پھر بیٹھے رہے اور مقتدیوں نے جب اپنی رکعت مکمل کی تو امام کے ساتھ انہوں نے سلام پھیرا ، امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے صلوۃ خوف کے متعلق اس سے اچھا اور کہیں نہیں سنا۔ سہل بن ابی حثمہ ؓ بھی اسی طرح نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور ایک جماعت کا قول ہئے کہ جب امام ایک رکعت جماعت اولی کو پڑھا لے گا تو وہ دشمن کے سامنے چلی جائے گی اور دوسری جماعت اگر امام کی دوسری رکعت میں شامل ہوگی امام ان کو دوسری رکعت پڑھائے گا اور امام اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیر دے گا ، پھر یہ جماعت اپنی نماز کو مکمل کیے بغیر دشمن کے سامنے چلی جائے گی ، پھر طائفہ اولی واپس مسجد میں آئے گا اور اپنی نماز مکمل کرے گا ، پھر اسی طرح دوسرا طائفہ آئے گا اور اپنی نماز مکمل کرے گا یہ روایت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی ہے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح نقل کی ہے اور یہی اصحاب الرای کا قول ہے ۔ زہری عن سالم سے منقول ہے اور وہ اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے دو گروہوں کو صلوۃ خوف اس طرح پڑھائی کہ ایک گروہ کو نماز پڑھائی اور دوسرے گروہ کو دشمن کے سامنے بھیجا ، پھر یہ گروہ ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلا گیا اور دوسرے گروہ نے آکر امام کے ساتھ بقیہ ایک رکعت پڑھی ، پھر امام نے دوسرے گروہ کے ساتھ سلام پھیرا۔ یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں اور بعض حضرات نے کہ یہ اختلاف مباح ہے اور امام شافعی (رح) بھی اسی سہل بن حثمہ ؓ کی روایت کی طرف گئے ہیں کیونکہ یہ قرآن کے موافق ہے اور نماز کے زیادہ قریب ہے اور دشمن کی حراست میں یہ زیادہ ابلغ ہے اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت)” فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم “۔ جب تم نماز پڑھ چکو پھر آگے ارشاد فرمایا (آیت) )’ ولتات طائفۃ اخری لم یصلوا “۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طائفہ اولی نماز پڑھ چکا اور فرمایا (آیت)” فلیصلوا معک “ یعنی اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پوری نماز پڑھے اور صلوۃ خوف میں تو ظاہر ہے کہ ہر گروہ اپنی نماز مکمل کیے بغیر امام سے جدا ہوجاتا ہے ، نماز کے سلسلہ میں یہ احتیاط لازمی ہے کہ اس میں زیادہ چلنا پھرنا ، آنا جانا نہیں پایا جاتا ، اور اس بات میں احتیاط ہے کہ جب دونوں فریق حالت نماز میں نہ ہوں تو اس صورت میں جنگ کا امکان ہے اور اگر دوران جنگ نماز کا وقت آجائے تو صلوۃ خوف کا حکم ہے یہ تو دورکعات کا حکم ہے اگر چار رکعات والی نماز ہو تو پھر ہر ایک طائفہ کو دو رکعت پڑھائے گا ۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ کے غزوہ ذات الرقاع میں گئے یہاں تک کہ ہم ایک خوب سایہ دار درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ، آپ اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی ، اچانک مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور آپ ﷺ کی لٹکی ہوئی تلوار اٹھائی اور آپ ﷺ پر سونت لی اور رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ کیا آپ مجھ سے ڈرتے ہو ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں ، اس شخص نے کہا کون آپ کو مجھ سے پچائے گا ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا مجھے تم سے اللہ بچائے گا ، آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آئے ، اس شخص نے کہا کہ میرے ہاتھ سے تلوار گرگئی ، اور آپ ﷺ نے اس کو لے لیا ، پھر نماز کے لیے اذان دے دی گئی ، پھر ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر وہ پیچھے ہٹ گئے، پھر دوسرے گروہ کو دو رکعات نماز پڑھائی ۔ فرمایا کہ آپ ﷺ کی چار رکعات ہوئیں اور قوم کی دو رکعات ہوئیں ، حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے بطن نخلہ میں ظہر کی نماز صلوۃ خوف سے پڑھی ، آپ ﷺ نے ایک طائفہ کو دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا ، پھر دوسرے طائفہ کو دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا ۔ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ سے صلوۃ خوف کے متعلق روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک رکعت نماز پڑھائی ، ایک گروہ کو اور دوسرے گروہ کو ایک رکعت نماز پڑھائی اور اس کی قضاء نہیں کی ۔ زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ قوم کی ایک رکعت ہوئی تھی اور نبی کریم ﷺ کی دو رکعات اور بعض قوم نے اس کو بہت شدت خوف پر محمول کیا ہے اور انہوں نے کہا ایسی حالت میں ایک رکعت فرض ہے اور اکثر اہل علم نے کہ شدت خوف کی وجہ سے رکعت کی تعداد میں کمی نہیں ہوتی ۔ اور اگر دشمن قبلہ کی سمت ہو تو اس صورت میں امام کے ساتھ مقتدی اسلحہ لے کر کھڑے ہوں گے اور سجدہ میں (اگلی صف پہلے جائے گی جب وہ اٹھ کھڑے ہوں تو دوسری صف سجدہ کرے گی) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے صلوۃ خوف پڑھائی تو آپ ﷺ نے اپنے پیچھے دو صفیں بنائیں اور دشمن ہمارے اور ہمارے قبلہ کی جانب تھا ، آپ ﷺ نے تکبیر کہی تو ہم نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی ، پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا ، ہم نے بھی رکوع کیا ، پھر آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے اٹھایا ، پھر آپ ﷺ جب سجدہ میں گئے تو آپ ﷺ کے ساتھ والی صف سجدہ میں گئی ، اور آخری صف دشمن کے لیے کھڑی رہی ، جب آپ ﷺ سجدے سے فارغ ہوئی اور کھڑے ہوئے پھر پچھلی صف سجدے میں گئی پھر دوسری رکعت میں آپ ﷺ نے رکوع کیا اور سب نے ان کے ساتھ رکوع کیا ، پھر سب نے آپ ﷺ کے ساتھ رکوع سے اٹھایا ، پھر آپ ﷺ سجدے میں گئے ۔ پھر آپ ﷺ کے ساتھ والی صف والے سجدے میں گئے اور پھر جب وہ سجدے سے اٹھے تو دوسری صف والے سجدہ میں گئے، پھر آپ ﷺ نے سلام پھیرا ہم سب نے آپ ﷺ کے ساتھ سلام پھیرا ، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں جیسا کہ ہم اپنے امراء کے لیے پہرہ دیا کرتے تھے، آپ ﷺ کے بعد نماز خوف مشروع ہے یہی اہل علم کا قول ہے اور بعض کے نزدیک یہ جائز نہیں اور عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ۔ امام احمد بن حنبل (رح) فرماتے ہیں کہ ہر وہ حدیث جو صلوۃ خوف کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس پر عمل کرنا جائز ہے اس میں چھے یا سات وجہ ہیں ، مجاہد (رح) نے اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں لکھا ہے ۔ ابن عیاش زرقی ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ عسفان میں تھا اور مشرکین بھی تھے خالد بن ولید بھی تھے ۔ ظہر کی نماز پڑھی تو مشرکیننے کہا کہ ہمیں بہت بڑا دھوکہ پہنچا ہے اگر ہم ان پر حملہ کردیتے تو کیا ہوتا ، پھر نماز ظہر وعصر کے درمیان یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت)” واذا کنت فیھم “۔ اگر آپ ان کے ساتھ موجود ہوں اور نماز کا وقت ہوجائے ۔ (آیت)” فلتقم طائفۃ منھم معک “۔ ؛ چاہیے کہ آپ کھڑا کریں جیسا کہ دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے (آیت)” واذا اظلم علیھم قاموا “ اس کا معنی ہے جب وہ ٹھہرا رہے (آیت)” ولیاخذوا اسلحتھم “۔ (اسلحہ لیکر نماز پڑھنے کا حکم) اس بارے میں آئمہ کرام کا اختلاف ہے کہ کیا اسلحہ لے کر نماز میں کھڑے ہوسکتے ہیں یا نہیں ؟ بعض نے کہا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو امام کے ساتھ نماز میں کھڑے ہوں اور اسلحہ ان کے ساتھ ہو، یہ اس صورت میں ہے جب اسلحہ ان کو نماز سے مشغول نہ کر دے اور نہ ہی اپنے ساتھی کو نقصان پہنچائے ، اگر اس کو نماز میں مشغول کر دے تو اتار لے یا نماز میں اس کو اسلحہ بھاری معلوم ہو تو اس صورت میں وہ نہ لے ۔ بعض نے کہا کہ (آیت)” ولیاخذوا اسلحتھم “۔ باقی لوگ اسلحہ لے کر دشمن کے سامنے کھڑے ہوجائیں (آیت)” فاذا سجدوا “ یعنی جب وہ نماز پڑھیں (آیت)” فلیکونوا من ورائکم “۔ یعنی وہ جگہ جہاں دشمن موجود ہو۔ ” ولتاتطائفۃ اخری لم یصلوا “۔ وہ گروہ جو دشمن کے سامنے کھڑا تھا ۔ (آیت)” فلیصلوا معک ولیاخذوا حذرھم واسلحتھم “۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد وہ ہیں جو دشمن کے سامنے آئے اور بعض نے کہا کہ وہ مراد ہیں جنہوں نے نماز پڑھ لی ہے ۔ (آیت)” ود الذین کفروا لوتغفلون “۔ یعنی کفار یہ تمنا کرتے ہیں کہ اگر وہ تمہیں غافل پائیں ۔ (آیت)” عن اسلحتکم وامتعتکم فیمیلون علیکم میلۃ واحدۃ “۔ وہ ارادہ کرتے ہیں اور یک بارگی حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ (آیت)” ولا جناح علیکم ان کان بکم اذی من مطر اوکنتم مرضی ان تضعوا اسلحتکم “۔ حالت مرض اور بارش کی حالت میں اسلحہ اتارنے کی اجازت ہے کیونکہ ان دونوں حالتوں میں اسلحہ اٹھانا بھاری ہے ۔ (آیت)” وخذوا حذرکم “۔ کسی محفوظ مقام پر پناہ گیر رہا کرو تاکہ دشمن ناگہاں تم پر حملہ نہ کر دے ، کلبی (رح) نے ابو صالح (رح) کے حوالے سے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نبی محارب اور بنی انمار سے جہاد کرنے تشریف لے گئے ، ایک جگہ پڑاؤ کیا ، وہاں دشمن کا کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا ، لوگوں نے ہتھیار کھول دیئے اور رسول اللہ ﷺ بھی ہتھیار کھول کر قضائے حاجت کے لیے وادی قطع کرکے پار چلے گئے ، بارش ہو رہی تھی ، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان وادی حائل ہوگئی ، ایک درخت کے نیچے قضاء حاجت کے لیے بیٹھ گئے ، غویرث بن حارث محاربی نے دور سے آپ کو دیکھ لیا ، کہنے لگا اللہ مجھے قتل کر دے اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں ، پھر تلوار سونت کر پہاڑ سے نیچے آیا اور بولا اے محمد ﷺ اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ ۔ پھر آپ ﷺ نے دعا کی اے اللہ ! تو جس طرح چاہے مجھے غویرث بن حارث سے بچا ۔ غویرث نے مانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی طرف تلوار بڑھائی تھی کہ یکدم اس کے دونوں شانوں کے درمیان درد اٹھا اور درد کی وجہ سے منہ کے بل گرپڑا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر الگ جا پڑی ، حضور ﷺ نے فورا اٹھ کر تلوار لے لی اور فرمایا غویرث اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا بولا کوئی نہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا کیا تو شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کا بندہ اور رسول ہے ، میں تیری تلوار تجھے دے دوں گا ، بولا نہیں ، ہاں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ آپ ﷺ سے جنگ کبھی نہیں کروں گا اور تمہارے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کروں گا ، رسول اللہ ﷺ نے تلوار دے دی ، غویرث بولا خدا کی قسم ! تم مجھ سے بہتر ہو ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، بیشک میں اس کا مستحق بھی تجھ سے زیادہ ہوں ۔ غویرث چلا گیا ساتھیوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا ارے تجھے کیا ہوگیا کس چیز نے تجھے روک دیا ، بولا میں نے مارنے کے لیے اس کی طرف تلوار بڑھائی ہی تھی کہ میں نہیں جان سکا کہ کس نے میرے دونوں شانوں کے درمیان درد پیدا کردیا اور میں منہ کے بل گرپڑا اور پور احال ذکر کیا اور فرمایا وادی میں خاموشی ہوگئی ، آپ ﷺ نے وادی پار کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو اس بات کی خبر دی اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت)” ولا جناح علیکم ان کان بکم اذی من مطر اوکنتم مرضی ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم “۔ تمہارے دشمنوں سے ۔ سعید بن جبیر (رح) ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف زخمی تھے ۔ (آیت)” ان اللہ اعد للکافرین عذابا مھینا “۔ اہانت والا عذاب ، جناح کہا جاتا ہے گناہ کو ، کہا جاتا ہے کہ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص اپنے ارادے سے پھر جائے ۔
Top