Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 107
وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًاۚۙ
وَلَا تُجَادِلْ : اور نہ جھگڑیں عَنِ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ِاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ كَانَ : جو ہو خَوَّانًا : خائن (دغا باز) اَثِيْمًا : گنہ گار
اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا کیونکہ خدا خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا
(تفسیر) 107: (آیت)” ولا تجادل “ نہ جھگڑا کرو ، (آیت)” عن الذین یختانون انفسھم “۔ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ، خیانت کرکے اور چوری کرکے (آیت)” ان اللہ لا یحب من کان خوانا “۔ خوانا سے مراد خیانت کرنے والا ” اثیما “ زرہ چوری کرکے اور اور اس کا الزام یہودی پر لگا کر گناہ کا مرتکب ہوئے اور بعض نے کہا کہ خطاب النبی ﷺ کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی شامل ہیں ، (آیت)” فان کنت فی شک مما انزلنا الیک “۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے حق میں نبوت کے بعد تین وجوہ میں سے ایک وجہ سے استغفار کرنا جائز ہے ۔ (1) نبوت سے پہلے گناہ کے لیے استغفار کرنا ۔ (2) اپنی امت اور اہل قرابت کے گناہوں کے استغفار کے لیے ۔ (3) اس مباح فعل کے لیے استغفار جس کی شرعی ممانعت آنے پر اس کو چھوڑ دیا ، اس صورت میں استغفار کا معنی سمع اور طاعت ہوگا ۔
Top