Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 115
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر ﷺ کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے
(تفسیر) 115۔: (آیت)” ومن یشاقق الرسول “۔ اس آیت کا نزول طعمہ بن ابیرق کے بارے میں ہوا ، جب اس پر چوری کا ظہور ہوا تو اس کو ڈر وخوف لاحق ہوا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہ رسوا ہوجائے گا تو پھر یہ مکہ کی طرف بھاگ گیا اور مرتد ہوگیا ، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی (آیت)” ومن یشاقق الرسول “۔ بمعنی مخالفت کرنا (آیت)” من بعد ما تبین لہ الھدی “۔ توحید اور حدود کے ظاہر ہونے کے بعد ” ویتبع غیر سبیل المؤمنین “ مؤمنین کے راستے کے علاوہ (آیت)” نولہ ما تولی “۔ اس کو آخرت کی طرف پھیر دیں گے جس کو انہوں نے دنیا میں چھوڑ دیا تھا (آیت)” ونصلہ جھنم وساء ت مصیرا “۔ روایت کیا گیا ہے کہ طعمہ بن ابیرق ایک شخص کے ہاں ٹھہرا جس کا تعلق قبیلہ بنی سلیم کے ساتھ تھا مکہ کا رہنے والا تھا اس کا نام حجاج بن علاط ہے اس کے گھر پر کسی نے نقب لگایا اور اس پر پتھر آگرا کوئی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ وہ اس کے گھر میں داخل ہوجائے بعض لوگوں نے کہا کہ اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس نے ہماری طرف پناہ پکڑی ہوئی ہے اور اس کو چھوڑ دو تاکہ مکہ کی طرف چلا جائے ، پھر یہ وہاں سے تجارتی قافلہ کے ساتھ نکل کر شام چلا گیا ، راستے میں جب قافلہ ٹھہرا اس نے قافلہ والوں سے کچھ سامان چوری کیا اور کچھ کو مارا ، پھر قافلہ والوں نے اس کو طلب کرکے اس کو پکڑا اور پتھروں کے ساتھ اس کو ہلاک کردیا ، پس اس کی قبر وہ پتھروں کی جگہ بن گئی ، بعض نے کہا کہ یہ ایک کشتی میں سوار ہوا تاکہ جدہ کی طرف جائے ، اس نے اس کشتی سے کسی کا بیگ چرایا جس میں دنانیر تھے پھر یہ پکڑا گیا اس کو پھر اہل کشتی والوں نے سمندر میں پھینک دیا اور بعض نے کہا کہ یہ قبیلہ بنی سلیم کے مقام حرہ میں اترا ، یہ وہیں بتوں کی پوجا کرنے لگا یہاں تک کہ مرگیا ، اس پر یہ آیات نازل فرمائی ۔
Top