Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
(تفسیر) 11۔: (آیت)” یوصیکم اللہ ۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔ حظ الانثیین “۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرجاتا تو اس کی وارثت بڑے مردوں میں تقسیم کی جاتی ، عورتوں میں اور چھوٹے بچوں کو محروم کردیا جاتا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اس جاہلیت کی رسم بد کو اس آیت میں منسوخ کردیا (آیت)” للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون “۔ زمانہ جاہلیت کی طرح ابتداء اسلام میں کچھ لوگ اس طرح کرتے تھے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم “۔ پھر وارثت کو ہجرۃ کے ساتھ مقید کردیا اور ارشاد فرمایا (آیت)” والذین امنوا ولم یھاجروا مالک من والایتھم من شیء حتی یھاجروا “۔ پھر یہ آیت منسوخ ہوگئی ، پھر وارثت کا حق تین چیزوں کے ساتھ رہ گیا ، نسب کے ساتھ ، نکاح کے ساتھ اور ولاء کے ساتھ نسب کے معنی یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار بعض سے بعض کا وارث ہوگا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” واولو الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ “ نکاح کا معنی یہ ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ، ولاء کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کرنے والا آزاد کیے ہوئے کا وارث ہوگا ، اس پر اللہ کی مدد ونصرت سے ایک علیحدہ فصل ذکر کریں گے جس میں اقارب کے حصے متعین ہوں گے ۔ (وراثت کے مسائل) وارثت کے مال کی کیفیت کے متعلق ہم بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص مرجاتا ہیء تو اس کے مال سے سب سے پہلے اس کی تجہیزوتکفین کی جاتی ہے پھر اس کے مال سے قرض ادا کیا جاتا ہے پھر اس کے بعد بچا ہوا مال میں اس کی تہائی میں وصیت مقبول ہوتی ہے جن ورثاء میں یہ مال تقسیم ہوتا ہے اس کی تین اقسام ہیں ، ان میں سے بعض اصحاب الفروض ہیں اور بعض عصبات اور بعض دونوں جو وارث نکاح سے وراثت ہوتے ہیں وہ اصحاب الفرائض میں سے ہیں (خاوند ، بیوی) اور جو ولاء کے ذریعے سے حصہ پاتے ہیں انہیں عصبات کہتے ہیں اور ان میں سے بعض وارث قرابت کی وجہ سے حصہ پاتے ہیں کہ ان میں سے بعض تو وہ ہیں جن کا حصہ فرض ہے یعنی اصحاب الفروض میں سے ہیں جیسے بیٹیاں ، بہنیں ، مائیں ، دادیاں اور ماں شریک اولاد اور ان میں سے بعض ورثاء وہ ہیں جو عصبہ ہونے کی وجہ سے حصہ پاتے ہیں ، جیسے بیٹے ، بھائی ، چچا کے بیٹے ، ان میں سے بعض وہ ہیں جن کو فرض اور عصبہ دونوں ملتے ہیں جیسے اب ، یہ عصبہ محض ہوگا جب میت کی کسی قسم کی اولاد نہ ہو اور اگر میت کی اولاد موجود ہو تو پھر باپ کو سدس ملے گا اور اگر میت کی مؤنث اولاد موجود ہو تو پھر باپ کو فرض ہونے کی وجہ سے سدس اور عصبہ ہونے کی وجہ سے مابقیہ ملے گا ، اسی طرح دادا کا بھی ہے۔ صاحب التعصیب اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو اصحاب الفروض کے حصوں کے بعد مابقی مال سمیٹ لے گا اسی طرح دادا کا بھی ہے ۔ اگر عصبہ اکیلا ہو تو پورا مال اس کو مل جائے گا کل ورثہ سترہ ہیں ، دس مردوں میں سے اور سات عورتوں میں سے ، مردوں میں سے مندرجہ ذیل ہیں ، ابن بیٹے کا بیٹا ، باپ ، دادا ، پردادا ، اور اس کے آگے ، بھائی خواہ حقیقی ہو یا علاتی (باپ شریک) ہو یا اخیافی (ماں شریک) ہو ، ماں شریک بھائی کا بیٹا یا باپ شریک کا بیٹا اور اس سے نیچے اور چچا خواہ ماں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے اور اس کے بیٹے اور اس سے نیچے یا میت کے باپ کے بیٹے اور اس کے نیچے تک زوج اور مولی عتاقہ ، عورتوں میں سے بیٹی ، پوتی ، اس سے نیچے تک ، دادای ، ماں ، کی ماں ، باپ کی ماں ، بہن حقیقی ہو یا علاتی ہو یا اخیافی ہو ، زوجہ اور مولی عتاقہ اور چھے وہ ہیں جو غیر کے ملحق ہونے کی وجہ سے محروم نہیں ہوتے، ابوان ، ولدان ، زوجان ، کیوں ان کے درمیان اور میت تک کسی کا واسطہ نہیں ، یہ چھے کبھی محروم نہیں ہوتے ۔ (وراثت سے محروم کردینے والی اشیائ) وہ اسباب جو وارثت سے محروم کردینے والے ہیں وہ چار ہیں ، اختلاف دین ، رقیت (غلامی) قتل ، اختلاف دارین، اختلاف دین کا مطلب یہ ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا اسی طرح مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا ۔ اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ ہی کافر مسلمان کا وارث ہوتا ہے ، کافر تو اپنے کفر والوں کا وارث ہے ، اگرچہ ان کی ملتیں مختلف ہوں ، (یہود و نصاری ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں) کیونکہ کفر ملت واحدہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت)” والذین کفروا اولیاء بعض “۔ بعض حضرات نے کہا کہ کفر کے اندر میں مختلف ملتوں کے ہونے کی وجہ سے وہ آپس میں وارث نہیں ہوں گے حتی کہ یہودی نصرانی کا وارث نہیں ہوسکتا ، اور اس طرح نصرانی بھی یہودی کا وارث نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی نصرانی مجوسی کا وارث ہوسکتا ہے ، یہ قول امام زہری (رح) ، اوزاعی (رح) ، احمد (رح) ، اسحاق (رح) ، کا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ دو ملتیں کئی ملتوں کا وارث نہیں بن سکتی ، بعض حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ کفر کا وارث نہیں ہوسکتا کیونکہ کفر تو ملت واحدہ ہے لہذا نہ بعض کی بعض کے ساتھ وارث ہوں گی ۔ غلام بھی کسی کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کوئی اس کا وارث ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی ملکیت ہی نہیں اس لیے اس کا کوئی وارث نہیں ، قن (مکمل غلام) اور مدبر (جس کو آقا یہ کہہ دے کہ تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے) مکاتب (جس کو آقا کہ کے اتنا مال مجھے لا کر دے میں تمہیں آزاد کروں گا) اور ام ولد (وہ لونڈی جو اپنے آقا سے بچہ جن دے) قتل بھی میراث سے مانع ہے ، قتل خواہ جان بوجھ کر ہو یا خطاء ہو جس طرح کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قاتل وارث نہیں ہوگا اسے مراد وہ موت ہے جن کے متعلق معلوم نہ ہو کہ کون پہلے مرا ہے، مثلا دو شخص آپس میں لڑنیوالے ہوں پانی میں ، ان میں سے معلوم نہیں کہ پہلے کون مرا ہے لہذا ان میں سے ہر ایک دوسرے کا وارث نہیں ہوگا ، البتہ ان کے زندگان کو ان کی وارثت ملے گی ، (اصحاب الفروض کے حصوں کی تقسیم) محدود حصے وارثت میں ہیں وہ چھے ہیں ، نصف ، ربع ، ثمن، ثلثان ، ثلث ، سدس ، نصف اصحاب فروض میں سے تین کو ملتے ہیں ، زوج کو فرض ملے گا نصف جب میت کی کوئی اولاد نہ ہو اور ایک بیٹی کو نصف ملے گا یا پوتی کو نصف ملے گا جب صلبی بیٹے موجود نہ ہوں ایک بہن جب اس کے ساتھ کوئی میت کا لڑکا نہ ہو ، خواہ وہ بہن حقیقی ہو یا اخیافی یاعلاتی ہو ۔ اور ربع اصحاب فروض میں سے دو کو ملے گا ، زوج کو ربع ملے گا جب میت کی اولاد موجود ہو اور اس طرح زوجہ کو ربع ملے گا جب میت کی اولاد نہ ہو اور ثمن صرف زوجہ کو ملے گا جب میت کی اولاد موجود ہو اور ثلثان دو صلبی بیٹیوں کو یا دو بہنوں کو دیں گے اور ثلث اصحاب فروض میں سے تین کو ملتا ہے ، فرض الام ، ماں کو ثلث ملے گا جب میت کے والدین نہ ہوں اور ماں کو ثلت مابقی ملے گا ، زوج اور زوجہ کو دینے کے بعد اس کو ثلث دیا جائے گا اور اثنان اخوۃ واخوات کو ملے گا مگر صرف دو مسئلوں میں ایک مسئلہ ہے کہ زوج اور اب ، ام ، دوسرا مسئلہ زوجہ ، اب ، ام ، یہاں مسئلہ میں ماں کو باقی ماندہ مال سے ثلث ملے گا یعنی زوجہ اور زوج کو دینے کے بعد جو باقی بچے گا اس سے تہائی والدہ کو دیں گے ، ماں کی اولاد کو بھی اتنا ہی ملے گا خواہ وہ مذکر ہو یامؤنث اور دادا کو بھائیوں کو ساتھ بھی اتنا ہی ملے گا جب اس مسئلہ میں کوئی اور اصحاب فرائض میں سے موجود نہ ہو، سدس اصحاب فروض میں سے سات کو ملے گا ، اب کو سدس ملے گا جب میت کی اولاد موجود ہو اور ماں کو سدس ملے گا جب میت کی اولاد موجود ہو اور جب دو بھائی یا دو بہنیں موجود ہوں ، دادا کو فرض ملے گا جب میت کا لڑکا موجود ہو یا میت کا بھائی یا بہن موجود ہو ، اسی طرح دادا کو سدس ملے گا جب اس کو بھائیوں کے ساتھ ترکہ میں تقسیم کیا جائے گا ، دادی کا حصہ اور ماں کی اولاد میں کوئی ایک ہو خواہ مذہ ہو یا مؤنث اور پوتیوں کو فرض حصہ ملے گا جب میت کی ایک بیٹی موجود ہو اس صورت ” تکملۃ للثلثین “ اور علاتی بہنوں کو جب میت کی ایک حقیقی بہن ہو اس صورت میں بھی سدس ملے گا ” تکملۃ للثلثین “۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وراثت کے حصہ داروں کو حصہ عطا کرو پھر جو باقی بچ جائے تو اس کے ساتھ والا قریبی رشتہ دار اس کا وارث ہے ، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ورثہ دوسرے بعض ورثاء سے محجوب (محروم) بھی ہوتے ہیں ، حجب کی دو قسمیں ہیں : حجب حرمان ، حجب نقصان ، حجب نقصان یہ ہے کہ بیٹا یا بیٹے کا بیٹا موجود ہو تو خاوند کو نصف سے ربع کی طرف اور اسی طرح بیوی کو ربع سے ثمن کی طرف اور ماں کو ثلث سے سدس کی طرح اور اسی طرح دو بھائی ماں کے ثلث کو سدس کی طرف پھیر دیتے ہیں ۔ حجب حرمان کہتے ہیں کہ ماں کی وجہ سے دادی محروم ہوجاتی ہے ، اسی طرح اخوات واخواۃ لام یہ چار وجہ سے محروم ہوجائیں گے ، باپ کی وجہ سے ، دادا کی وجہ سے ان سے اوپر ، اسی طرح بیٹے سے پوتا اور اس سے نیچے بھی محروم ہوجائیں گے ، اولاد بالاب والام دونوں ساقط ہوجائیں گے ، تین چیزوں سے میت کے باپ سے اور بیٹے سے پوتے سے بھائی محروم ہوجائیں گے ۔ دادا کی وجہ سے یہ ساقط نہیں ہوں گے ، زید بن ثابت ؓ کا یہی قول ہے ، یہی قول عمرو ؓ ، عثمان ؓ تعالیٰ عنہ ، علی ؓ ، وابن مسعود ؓ کا ہے اور فقہاء میں امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) ، اوزاعی (رح) ، احمد (رح) ، اسحاق (رح) ، نے روایت کیا ہے ۔ باپ شریک بھی انہی صورتوں میں محروم ہوں گے ، بالاخ لاب وام سے اور بعض حضرات کے نزدیک تمام بھائی ساقط ہوجائیں گے دادا سے جیسا کہ باپ کی موجودگی سے دادا محروم ہوجاتا ہے ، یہ قول ابو بکرصدیق ؓ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، حضرت معاذ ؓ ، ابی درداء ؓ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بھی ہے اور یہی قول حسن بصری (رح) ، طاؤس (رح) ، ابوحنیفہ (رح) ، کا ہے قریبی عصبات دور والے عصبات کو محروم کردیتے ہیں ، اسی طرح قریبی بیٹا ، دور والے بیٹے کو محروم کردیتا ہے ، اسی طرح باپ کی موجودگی میں دادا محروم ہوجائے گا اور دادا کی موجودگی میں پردادا محروم ہوجائے گا ، اگر دادا کے ساتھ میت کا بھائی ، بہن ہو خواہ وہ حقیقی بہن بھائی ہوں یا علاتی ہوں یا اخیافی یہ میراث میں مشترک ہوں گے ، اگر دادا موجود نہ ہو تو پھر حقیقی بھائی مقدم ہوں گے پھر علاتی بھائی پھر اخیافی بھائی ، پھر اس کے بعد اخیافی بہنیں یا علاتی ، پھر اس کے بعد قریبی رشتہ دار اگر سب درجہ میں برابر ہوں تو سب سے پہلے مقدم وہ ہوں گے جو حقیقی بہن بھائی ہوں پھر چچا کے بیٹے وغیرہ پھر باپ کے چچا کے بیٹے پھر دادا کے چچا کے بیٹے علی ہذا الترتیب ۔ اگر میت کے رشتہ داروں میں سے کوئی عصبات بھی موجود نہ ہوں تو میت کی میراث آزاد کردہ کے لیے ہوگی ، معتق کے عصبات چار ہیں ، مردوں میں سے جو عورتوں کو عصبہ بناتے ہیں ، بیٹا ، پوتا حقیقی بھائی ، علاتی بھائی ، اگر مرجائے تو اس کا بیٹا یا بیٹی یا بھائی یا بہن حقیقی ہوں یا علاتی ہوں اگر ان کے پاس مال ہو تو (آیت)” للذکر مثل حظ الانثیین “۔ کے تحت یعنی مرد کو دو حصے اور عورت کو ایک حصہ دیا جائے گا اس صورت میں بیٹی یا بہن اسی طرح پوتا ان کے برابر میں جو آئے گا ان کو یہ عصبہ بنادیں گے اور اگر ثلث بیٹیوں کو مل گیا تو اس سے آگے کسی بیٹی کو کچھ نہیں ملے گا ، مثلا بیٹے کی بیٹی کو کچھ نہیں ملے گا ، ہاں اگر اس پوتی کے درجہ میں کوئی پوتا موجود ہو تو یا اس سے نیچے پڑ پوتا ہو تو اس صورت میں (آیت)” للذکر مثل حظ الانثیین “۔ کے تحت تقسیم کیا جائے گا ، حقیقی بہن یا علاتی بہن یہ بیٹی کے ساتھ عصبہ بن جائے گی ، اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر مرگیا تو بیٹی کو نصف ملے گا اور بہن کو عصبہ ہونے کی وجہ سے باقی ماندہ ملے گا ، اگر کوئی شخص ایک بہن اور دو بیٹیاں چھوڑ کر مرا تو بہنوں کو دو ثلت اور بہن کو عصبہ ہونے کی وجہ سے باقی ماندہ مال ملے گا ۔ ابو قیس فرماتے ہیں کہ میں نے ہزیل بن شرحبیل کو فرماتے ہوئے سنا کہ انہوں نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے اپنی بیٹی ، پوتی اور بہن کے حصوں کے متعلق پوچھا ، انہوں نے کہا کہ بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے نصف ، پھر یہ ابن مسعود ؓ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یہ مسئلہ ہے اور اس کے متعلق ابو موسیٰ اشعری ؓ سے پوچھا تو انہوں نے یہ جواب دیا ، انہوں نے فرمایا کہ پھر تو تم گمراہ ہوگئے اور تم ہدایت بھی نہیں پاسکتے ، انہوں نے تو بالکل سنت رسول کے مطابق فیصلہ دیا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف اور پوتی کے لیے سدس ” تکلملۃ الثلثین “۔ کے لیے اور باقی مال جو بچے گا وہ بہن کو ملے گا ، وہ پھر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس آئے اور انہوں نے ابن مسعود ؓ کے بارے میں بتلایا ، وہ کہنے لگے کہ جب تم میں وہ بڑے عالم مجھ سے موجود ہیں ، اس وقت تک مجھ سے کسی بات کے بارے میں سوال نہ کرنا ، انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ کی تفسیر کی طرف رجوع کرلیا ، اس کے نزول میں آئمہ کا اختلاف ہے ۔ محمد بن منکدر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جب وہ میری عیادت کرنے کے لیے آئے اور میں مریض تھا اور مجھے ہوش نہیں تھا ، آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو کا پانی مجھ پر ڈالا ، اس سے مجھے ہوش آئی میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میری میراث کس کو ملے گی ؟ حالانکہ میرا کوئی وارث بیٹا بیٹی نہیں ، کلالہ ہوں ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔ مقاتل (رح) ، اور کلبی (رح) کا بیان ہے کہ یہ آیت ام کجۃ جو اوس بن ثابت کی بیوی ہیں اور ان کی بیٹیوں کے متعلق نازل ہوئی عطاء (رح) کا قول ہے سعد بن ربیع ؓ کے دن شہید ہوگئے ، پیچھے دہ دو بیٹیاں اور بیوی اور ایک بھائی چھوڑ کر گئے ، ان کے بھائی نے سب مال لے لیا ، سعد کی بیوی آپ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسول ﷺ یہ دونوں بیٹیاں سعد کی ہیں اور حضرت سعد ؓ احد کے دن شہید ہوگئے تھے اور ان کے چچا نے سب مال قبضے میں لے لیا اور میرے پاس اتنا مال بھی نہیں کہ میں ان دونوں کی شادی کروا سکوں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا آپ چلے جاؤ امید ہے اللہ تعالیٰ اس پر فیصلہ فرما دے گا ۔ اس پر یہ آیت ” یوصیکم اللہ “ نازل ہوئی ، آپ ﷺ نے ان کے چچا کو بلوایا اور ان سے کہا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو ثلثان دیدو اور انکی ماں کو ثمن دیدو اور جو باقی بچ جائے تم لے لو ، یہ اسلام میں پہلی میراث تھی جو تقسیم ہوئی ۔ اللہ عزوجل کا فرمان (آیت)” یوصیکم اللہ فی اولادکم “۔ یعنی تمہارے لیے شمار کرکے رکھا ہے اور تمہارے اولادوں کے بارے میں تمہارے لیے فرض کیا گیا جب تم مرجاؤ تو تمہاری اولاد کے متعلق یہ حکم دیتے ہیں (آیت)” للذکر مثل حظ الانثیین “۔ ” فان کن “ یہ ترکہ جو تمہاری اولاد کے لیے چھوڑا گیا (آیت)” نساء فوق انتین ’“ دو حصے ہی ملیں گے دو ہوں یا اس سے زائد ، فوق صلہ ہے جیسا کہ ارشاد ہے ” فاضربوا فوق الاعناق “۔ ۔۔۔۔۔۔۔ فلھن ثلث ما ترک وان کانت “ اگر بیٹی موجود ہو ” واحدۃ “ کان کی خبر ہے اور قراء اہل مدینہ نے اس کو مرفوع پڑھا ہے ، (آیت)” فلھا النصف ولابویہ “ اس سے مراد میت کے والدین ہیں ، (آیت)” لکل واحد منماالدس مماترک ان کان لہ ولد “۔ اس سے مراد باپ اور ماں ان دونوں کو سدس ملے گا جب اولاد یا اولاد کی اولاد نہ ہو اور باپ اصحاب فروض میں سے ہے ، (آیت)” فان لم یکن لہ ولد وورثہ وابواہ فلامہ الثلث “۔ حمزہ (رح) ، اور کسائی (رح) ، نے یہی پڑھا ہے ، ” فلامہ “ بعض نے اس کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے (آیت)” فان کان لہ اخوۃ “۔ دو بہنیں ہوں یا اس سے زائد یا ان کے ساتھ مذکر بھی موجود ہیں ، ” فلامہ السدس “ ماں کے لیے سدس ہوگا اور باق ان کے باپ کے لیے ہوگا ، بہنوں کو باپ کے ساتھ کوئی میراث نہیں ملے گی لیکن ماں محجوب ہوجائے گی ثلث سے سدس ہوگا اور باقی ان کے باپ کے لیے ہوگا ، بہنوں کو باپ کے ساتھ کوئی میراث نہیں ملے گی لیکن ماں محجوب ہوجائے گی ثلث سے سدس کی طرف ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ بہنوں کی وجہ سے ماں کو ثلث سے سدس کی طرف نہیں ملے گا مگر یہ کہ بہنیں دو سے زائد ہوں ، یہاں پر ” فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس “ یہاں پر یہ نہیں کہا کہ دو بہنیں ہوں اس کا جواب دیا کہ اسم جمع کا اطلاق کبھی تثنیہ پر ہوتا ہے کیونکہ جمع کہا جاتا ہے کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانا اور وہ لفظ اثنین میں موجود ہے ، جیسا کہ (آیت)” فقد صغت قلوبکما “ یہاں پر قلب کو جمع کے ساتھ ذکر کیا لیکن اس کو تثنیہ کی طرف مضاف کیا ہے ” من بعد “ ” وصیۃ یوصی بھا اودین “۔ ابن کثیر (رح) ابن عامر (رح) ، ابوبکر (رح) ، نے صاد کے فتحہ کے پڑھا اور دوسرے قراء نے صاد کے کسرہ کے ساتھ پڑھا کیونکہ وصیت تو میت کی طرف سے ہی جاری ہوتی ہے موت سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ” یومین “۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے ” توصون “ پڑھا ہے یہ دین ” قرض “ سے پہلے وصیت کو نافذ مانتے ہیں جبکہ آپ ﷺ نے دین کی ادائیگی کے بعد وصیت کو نافذ مانا ہے اور اس بات پر اجماع ہے کہ دین وصیت پر مقدم ہے ، اس آیت میں معنی جمع کا ہے نہ کہ ترتیب کا اور میراث دین اور وصیت دونوں سے مؤخر ہے لہذا پہلے وصیت کرے اور اگر قرض ہے تو اس کی وصیت کرے اور میراث ان دونوں سے مؤخر ہے ” اباء کم وابناء کم “ ۔ جو میراث تم اپنے باپ کو یا بیٹوں کو دیتے ہو،۔ (آیت)” لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا “۔ تم اس بات کو نہیں جانتے کہ دین اور دنیا میں تمہارے لیے سب سے زیادہ نفع مند چیز کیا ہے تم میں سے بعض گمان کرتے ہیں کہ ان کے لیے باپ نفع مند ہے اور بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ بیٹا نفع مند ہے اور تم میں سے بعض کا خیال ہے کہ بیٹا زندہ نفع مند ہے ، عالم اس بات کو جانتا ہے کہ تمہارے لیے زیادہ نفع مند کیا چیز ہے اس کام کو تمہارے لیے پوشیدہ رکھا گیا ہے کسی مصلحت کی بناء پر تاکہ تم اس کی پیروی کرو، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہو کہ وہ تمہارے آباء اور ابناء کو قیامت کے دن اعلی درجہ عطاء فرما دے اللہ تعالیٰ بعض مؤمنین کو بعض کے ذریعے شفاعت کا ذیعہ بنائیں گے ، اگر قیامت کے دن بیٹے کا درجہ بڑا ہوا تو ان کے باپ کو بڑا درجہ دیا جائے گا اس کی شفاعت کی وجہ سے اور اگر باپ کا درجہ بڑا ہوا ہوگا تو باپ کی شفاعت سے بیٹے کو بھی اعلی درجہ ملے گا (آیت)” فریضۃ من اللہ “ جو اللہ تعالیٰ نے میراث میں مقدر کردیا گیا ، (آیت)” ان اللہ کان علیما “۔ بندوں کے افعال کو جانتا ہے (آیت)” حکیما “ میراث کے جو احکام فرض کیے ہیں وہ پر حکمت ہیں ۔
Top