Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 128
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا١ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
وَاِنِ : اور اگر امْرَاَةٌ : کوئی عورت خَافَتْ : ڈرے مِنْۢ بَعْلِھَا : اپنے خاوند سے نُشُوْزًا : زیادتی اَوْ : یا اِعْرَاضًا : بےرغبتی فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْهِمَآ : ان دونوں پر اَنْ يُّصْلِحَا : کہ وہ صلح کرلیں بَيْنَهُمَا : آپس میں صُلْحًا : صلح وَالصُّلْحُ : اور صلح خَيْرٌ : بہتر وَاُحْضِرَتِ : اور حاضر کیا گیا (موجود ہے) الْاَنْفُسُ : طبیعتیں الشُّحَّ : بخل وَاِنْ : اور اگر تُحْسِنُوْا : تم نیکی کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو خَبِيْرًا : باخبر
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا اندیشہ وہ تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کرلیں اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبعیتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہے اور اگر تم نیکو کاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
(وان امراۃ خافت کا شان نزول) (تفسیر) 128۔: (آیت)” وان امراۃ خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا “ یہ عمرہ کے بارے میں نازل ہوئی جو خولہ بنت محمد بن مسلمہ کہا جاتا اور ان کے شوہر سعد بن ربیع کے بارے میں نازل ہوئی یا حضرت رافع بن خدیج کے حق میں نازل ہوا جنہوں نے بنت محمد ؓ سے نکاح کیا تھا ، اس وقت خولہ جوان تھیں جب پیری آگئی تو رافع نے کسی دوسری بیوی کو ان پر ترجیح دی اور ان سے الگ ہوگئے ، محمد بن مسلمہ نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر اس بات کی شکایت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ سعید بن جبیر ؓ کا قول ہے کہ ایک شخص تھا جس کی بیوی بوڑھی ہوگئی تھی ، اس شخص کی اس بیوی سے بچے بھی تھے ، مرد نے اس کو طلاق دے کر کسی دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہا ، عورت نے کہا مجھے طلاق نہ دو ، اپنے بچوں پر مجھے رہنے دو اور اگر چاہو تو دو ماہ میں میرے لیے ایک باری مقرر کر دو نہ چاہو تو یہ بھی نہ کرو مرد نے کہا جواب دیا اگر تو اس پر رضامند ہے تو مجھے بھی یہ صورت پسند پھر وہ شحص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ عرض کیا اس پر آیت (آیت)” وان امراء ۃ خافت “ نازل ہوئی ۔ (آیت)” من بعلھا “ اس سے مراد شوہر ہے ۔ (آیت)” نشوزا “ اس سے مراد بغض ہے ، کلبی (رح) نے اس کا معنی یہ کیا ہے کہ اس کا بستر علیحدہ کر دو اور اس سے اپنے چہرے کو پھیر دو اور اس سے کم اٹھو بیٹھو، (آیت)” فلاجناح علیھا “۔ اس سے مراد شوہر اور بیوی ہے ۔ (آیت)” ان یصلحا “۔ یعنی وہ آپس میں مصالحت کرتے ۔ اہل کوفہ نے (آیت)” ان یصلحا “۔ اصلاح سے لیا ہے ۔ (آیت)” بینھما صلحا “۔ اس سے مراد تقسیم اور خرچ ہے کہ شوہر اس سے کہے کہ تم بوڑھی ہوگئی اور میں جوان عورت کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں جو خوبصورت ہوگی اور باری کی تقسیم میں اس کو ترجیح دوں گا تو اس پر رضا مند ہے تو میرے پاس رہتی رہ اگر تجھے ناگوار ہو تو تجھے طلاق دے دوں گا ، ایسی حالت میں اگر عورت رضا مند ہوجائے تو یہ اس کا احسان ہوگا ، اس معاملہ پر اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا اور اگر رضا مند نہ ہو تو پھر مرد پر لازم ہے یا تو اس کے مصارف اور باری کا حق پوری ادا کرے ورنہ حسن سلوک کے ساتھ آزاد کر دے ۔ اگر اس کو نکاح میں رہنے دے گا اور اس کا حق ادا کرتا رہے گا بکراہت خاطر ہی ہو تو اس کو محسن کہا جائے گا ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اگر وہ بعض چیزوں میں صلح کرلیں تقسیم اور نفقہ کے بارے میں اس صورت میں جس پر وہ راضی ہے اتنا جائز ہے ، اگر وہ صلح کے بعد منکر ہوجائے تو یہ اسی عورت کا ہوگا اور حق بھی عورت کا ہوگا ۔ (زوجات میں مساوات کا حکم) مقاتل بن حبان (رح) کا قول ہے کہ اگر بوڑھی عورت کسی کے نکاح میں ہو پھر کسی جوان عورت سے مرد نکاح کرلے اور بوڑھی عورت سے کہے میں تجھے اتنا مال دوں گا بشرطیکہ تو اپنے حق کی باری میں کمی کر دے اور دوسری عورت کو اپنی باری دے دے اور بوڑھی عورت رضا مند ہوجائے تو بہتر اور اگر راضی نہ ہو تو مرد پر دونوں میں مساوات رکھنی لازم ہے ۔ حضرت علی ؓ نے اسی آیت کے ذیل میں فرمایا اگر کوئی عورت کسی کے نکاح میں ہو لیکن بدصورتی یا زیادتی عمر کے سبب مرد کی نظر میں نہ جچے اور عورت اس مرد سے جدا ہونا بھی پسند نہ کرے اور مرد کو کچھ مال دے دے تو یہ مال اس شخص کے لیے حلال ہے اور اپنی باریوں میں سے کوئی باری دے دے تب بھی درست ہے ۔ (آیت)” والصلح خیر “۔ اس کو اختیار دینے کے بعد اس کو اپنے پاس روکے رکھنا اور مصالحت کہا جاتا ہے بعض حقوق کو چھوڑ دینا تقسیم میں یا نفقہ میں ، جیسا کہ مروی ہے کہ سودہ ؓ جب بوڑھی ہوگئیں اور نبی کریم ﷺ نے چاہا کہ ان کو جدا کردیں ، حضرت سودہ ؓ نے فرمایا کہ مجھے طلاق نہ دیجئے اور اپنی زوجیت میں مجھے رہنے دیجئے تاکہ میں قیامت کے دن آپ ﷺ کی زوجیت میں اٹھائی جاؤں اور میں اپنی باری حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو دیتی ہوں ، اس پر آپ ﷺ نے انکو اپنے پاس روکے رکھا اس دن کے بعد تقسیم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس دو دن گزارتے تھے ، ایک دن کی باری حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اپنی باری دوسری حضرت سودہ ؓ کی ۔ (آیت)” واحضرت الانفس الشح “۔ شح زوجین میں سے ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے ، شح قبیح بخل حقیقت میں کہا جاتا ہے خیر سے روکنے کی حرص کرنا (آیت)” وان تحسنوا “ تم آپس میں صلح کرو گے ۔ (آیت)” وتتقوا “ اور ظلم وجور سے بچو گے ، یہ آپ ﷺ کو ازواج مطہرات ؓ عنھن کے ساتھ خطاب ہے ۔ یعنی اگر تم ناپسندیدگی کے باوجود بھی ان کو اپنے پاس روکے رکھو گے اور ان کے ساتھ ظلم نہیں کرو گے ۔ (آیت)” فان اللہ کان بما تعملون خبیرا “۔ وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیں گے ۔
Top