Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں پاکیزہ کہتے ہیں ؟ نہیں بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا
(الم ترا لی الذین یزکون “ کا شان نزول) (تفسیر) 49۔: (آیت)” الم ترا لی الذین یزکون انفسھم “۔ کلبی (رح) کا بیان ہے کہ اس آیت کا نزول یہودی مردودں کے بارے میں ہوا جن میں بحری بن عمرو ، نعمان بن اوفی ، مرحب بن زید بھی تھے ، یہ اپنے چھوٹے بچوں کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت گرامی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے محمد ﷺ کیا ان پر کوئی گناہ ہوسکتا ہے ؟ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ، نہیں کہنے لگے تو ہم بھی انہی کی طرح ہیں دن میں ہم جو کچھ کرتے تھے ان کو رات میں معاف کردیا جاتا ہے اور رات کو جو کام کرتے ہیں دن میں ان کا کفارہ ہوجاتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ مجاہد (رح) اور عکرمہ (رح) کا قول ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نماز میں آگے مقدم رکھتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ، اس وجہ سے ان کا تزکیہ کیا گیا، حسن (رح) ، ضحاک (رح) ، قتادہ (رح) ، اور مقاتل (رح) کا بیان ہے کہ آیت یہود و نصاری کے بارے میں نازل ہوئی ، جب انہوں نے کہا (آیت)” نحن انصار اللہ واحبائہ “۔ کہ ہم خدا کے بیٹے اور چہیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا (آیت)” وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھودا اونصاری “۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ جنت میں کوئی نہیں جائے گا ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا اہل کتاب آپس میں تزکیہ کرتے تھے یعنی ایک دوسرے کو گناہوں سے پاک کہتا تھا ۔ طارق بن شہاب (رح) کی روایت ہے کہ ابن مسعود ؓ کا قول ہے کہ بعض دین دار آدمی صبح کو اپنے گھر سے نکلتے تھے اور کسی ایسے شخص سے جا کر ملتے جس سے نہ ان کا جانی نفع نقصان وابستہ ہوتا نہ مالی لیکن ان کو خوش کرنے اور ان کی تعریف کرنے کے لیے کہتے خدا کی قسم ! آپ تو ایسے ایسے ہیں جب یہ گھر لوٹ کر آتے تو دین کا کوئی حصہ ان کے پاس باقی نہیں ہوتا تھا ، یہ فرمانے کے بعد حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ الم ترا لی الذین یزکون انفسھم “۔ تلاوت فرمائی ۔ (آیت)” بل اللہ یزکی “ وہ اس کو پاک کردیتا ہے اور گناہوں سے بری کردیتا ہے اور اصلاح حال کردیتا ہے ، (آیت)” من یشاء ولا یظلمون فتیلا “۔ سوئی کے ناکے کے برابر سوراخ کو فتیل کہا جاتا ہے ، اہل لغت کے نزدیک کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں جو ریشہ یا سونتا ہوتا ہے اس کو فتیل کہا جاتا ہے اور نقیر اس جھلی کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی پر ہوتی ہے اور بعض نے کہا کہ وہ دھاگہ یا میل کی بتی ہے جو آدمی دو انگلیوں کے درمیان بٹتا ہے۔
Top