Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 96
دَرَجٰتٍ مِّنْهُ وَ مَغْفِرَةً وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
دَرَجٰتٍ : درجے مِّنْهُ : اس کی طرف سے وَمَغْفِرَةً : اور بخشش وَّرَحْمَةً : اور رحمت وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
(یعنی) خدا کی طرف سے درجات میں اور بخشش میں اور رحمت میں اور خدا بڑا بخشنے والا (اور) مہربان ہے
(درجات سے کیا مراد ہے ؟ ) (تفسیر) 96۔ـ: ابن محیریز نے اس آیت کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس سے مراد ستر درجات ہیں اور ہر درجہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ تیز رفتار گھوڑا ستر سال چلتا رہے ۔ بعض نے کہا کہ درجات سے مراد اسلام ، جہاد ، ہجرت ، شہادت جس پر مجاہدین فائز ہوتے ہیں ۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے سعید ! جو شخص اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو ، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہو ، اس کے لیے جنت واجب ہے ، حضرت ابو سعید خدری ؓ کو یہ سن کر تعجب ہوا اور دوبارہ ارشاد کی درخواست کی ، حضور ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرما دیا ، پھر فرمایا ایک اور بات بھی ہے جس کی وجہ سے اللہ جنت کے اندر بندے کے سو درجے بلند فرمائے گا اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنی اونچائی ہوگی جیسے آسمان کی زمین سے ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ وہ کیا بات ہے ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد ، اللہ کی راہ میں جہاد ، یہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے اور نماز قائم کرتا ہے اور رمضان کے روزے رکھتا ہے تو اللہ عزوجل پر حق ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل کر دے خواہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہو یا بیٹھا رہا ہو، اس زمین میں جس میں وہ پیدا کیا گیا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا لوگوں کو ہم یہ خوش خبری نہ سنا دیں ؟ فرمایا جنت میں سو درجات ہیں جو اللہ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھے ہیں ، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جیسے آسمان و زمین کے درمیان جب تم اللہ سے مانگو تو جنت الفردوس مانگو ، یہ اوسط اور اعلی جنت ہے اس سے اوپر رحمن کا عرش ہے اور عرش سے ہی جنت کے دریا نکلتے ہیں ۔ جان لو کہ جہاد فی الجملہ فرض ہے ، علاوہ اس بات کے کہ اس کی دواقسام ہیں فرض عین اور فرض کفایہ ۔ فرض عین وہ جہاد ہے کہ کفار لوگ مؤمنین کے گھروں میں داخل ہوجائیں تو اس صورت میں مردوں میں سے جو کوئی معذور نہیں تھا اور نہ ہی کوئی عذر تھا تو دشمن کی طرف ان کا خروج ضروری ہے خواہ وہ بندہ آزاد فقیر ہو یا غنی ، اپنے آپ سے ان کو دور کرنے کی وجہ سے اور اپنے پڑوسیوں سے انکو دور کرنے کی وجہ سے ، ان لوگوں کے بعد جو پیچھے رہ گئے ہوں انکے لیے جہاد فرض علی الکفایہ ہے ، اگر کوئی جہاد کفایہ پورا نہ کرتا ہو تو اس صورت میں مؤمنین کے لیے لازمی ہے کہ مجاہدین کی مدد کریں ، اگر ان کے ساتھ اور مجاہدین بھی شامل ہوگئے اور انکو فتح حاصل ہوجاتی ہے تو پھر دور والوں کے لیے فرض کفایہ ہے ۔ اس حکم میں غلام شامل نہیں اور اسی طرح فقراء بھی شامل نہیں ۔ جہاد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے شہر میں کفار کو جنت کرنے کی جرات نہ ہو اس لیے امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر سال کسی جانب کوئی لشکر بھیجا کرے تاکہ کوئی سال جہاد سے خالی نہ ہو اور نہ ہی وہ اس سے معطل ہو سکے اور صاحب طاقت کو اختیار ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہونے کے باوجود بھی وہ جہاد سے بیٹھا نہ رہے لیکن اس شخص پر جہاد فرض نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں جہاد کرنے والوں اور بیٹھے رہنے والوں کو ثواب کا اعلان کیا ہے (آیت)” وفضلا وعداللہ الحسنی “۔ اگر یہ فرض کفایہ نہ ہوتا تو بیٹھنے والوں کو مستحق عذاب قرار دیا جاتا نہ کہ ثواب کا۔
Top