Tafseer-e-Baghwi - Al-Ghaafir : 29
یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ١٘ فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا١ؕ قَالَ فِرْعَوْنُ مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَ مَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَكُمُ : تمہارے لئے الْمُلْكُ : بادشاہت الْيَوْمَ : آج ظٰهِرِيْنَ : غالب فِي الْاَرْضِ ۡ : زمین میں فَمَنْ : تو کون يَّنْصُرُنَا : ہماری مدد کرے گا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ : اللہ کے عذاب سے اِنْ جَآءَنَا ۭ : اگر وہ آجائے ہم پر قَالَ : کہا فِرْعَوْنُ : فرعون مَآ اُرِيْكُمْ : نہیں میں دکھاتا (رائے دیتا) تمہیں اِلَّا مَآ : مگر جو اَرٰى : میں دیکھتا ہوں وَمَآ : اور نہیں اَهْدِيْكُمْ : راہ دکھاتا تمہیں اِلَّا سَبِيْلَ : مگر راہ الرَّشَادِ : بھلائی
اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا کہنے لگا کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار (کی طرف) سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے ؟ اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا، اور اگر وہ سچا ہوگا تو کوئی سا عذاب جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے تم پر واقع ہو کر رہے گا، بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو بےلحاظ جھوٹا ہو
28، وقال رجل مؤمن من آل فرعون یکتم ایمانہ، اس مؤمن کی تعیین میں اختلاف ہے۔ سدی اور مقاتل رحمہما اللہ فرماتے ہی کہ یہ قبطی تھا فرعون کا چچازاد بھائی اور یہ وہی شخص ہے جس کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یوں بیان کیا، وجاہ رجل من اقصی المدینۃ یسعی، اور بعض کا قول ہے کہ یہ اسرائیلی تھا اور آیت کی اصل ترتیب یوں ہوگی، وقال رجل مؤمن یکتم ایمانہ من آل فرعون، اور ابن عباس ؓ اور اکثر علماء حمہم اللہ کے نزدیک اس کا نام حزبیل تھا۔ اور ابن اسحاق (رح) فرماتے ہیں کہ اس کا نام جبریل تھا اور کہا گیا ہے کہ جو شخص آل فرعون میں سے ایمان لایا تھا اس کا نام حبیب تھا۔ ، اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ لان یقول الایۃ، یعنی اس لیے کہ وہ کہتا ہے کہ میراپر وردگار اللہ ہے۔ ، وقد جاء کم بلبینات من ربکم وان یک کاذبا فعلیہ کذبہ، تم کو یہ کچھ نقصان دے گا۔ ، وان یک صادقا، تم نے اس کی تکذیب کردی اس کے سچاہونے کے باوجود، یصبکم بعض الذی یعدکم ، ابو عبید (رح) فرماتے ہیں کہ بعض سے کل مراد ہے۔ یعنی اگر تم نے اس کو سچا ہونے کے باوجود قتل کردیا تو تم پر وہ عذاب آئے گا جس کا وہ وعدہ کرتا ہے۔ لیث (رح) فرماتے ہیں کہ بعض کے یہاں صلہ سے مراد یہ ہے، یصبکم الذی یعد کم، یعنی تم کو وہ چیز پہنچے گی جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے اور وہل معانی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حجاج کے بارے میں اپنے ظاہر پر ہے گویا کہ اس نے یہ کہا کہ اس کے سچا ہونے کا کم سے کم نتیجہ یہ ہے کہ تم کو اس کی وعدہ کی ہوئی بعض چیز پہنچے گی اور اس بعض میں ہی تمہاری ہلاکت ہے۔ پس بعض کا ذکر کل کو ثابت کرنے کے لیے ہے۔ ، ان اللہ لایھدی، اپنے دین کی طرف ، من ھومسرف، مشرک ہو۔ ، کذاب، اللہ پر۔ عروہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر وبن عاص ؓ کو کہا کہ مجھے بتائیں کہ مشرک نے رسول اللہ ﷺ کے کندھے کو پکڑلیا اور اپنا کپڑا آپ (علیہ السلام) کی گردن میں لپیٹ لیا اور خوب زور سے گلاگھونٹاتوحضرت ابوبکر ؓ آئے اور اس کے کندھے کو پکڑکر اس کو رسول اللہ ﷺ سے دور کیا اور کہا، اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ وقد جاء کم بالبینات من ربکم،
Top